یہ تحریر ابتدائی طور پر سال 2023 میں شائع کی گئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے وی نیوز کے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
معمول کی میٹنگ کے بعد کانفرنس روم سے نکلتے ہوئے عمار صاحب بولے؛ ایبٹ آباد آپریشن پر تو لوگ لکھیں گے مگر اس پر بننے والی فلموں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ فلم بینی سے دوری کی میری عادت سے واقفیت کے باوجود پوچھنے لگے؛ کوڈ نیم جیرونیمو دیکھی ہے۔ انکارکیا توجھٹ سے بولے؛ یہی دیکھ کراس پر ریویو لکھو۔ اب انٹرنیٹ پرسرچ کیا تو پتا چلا کہ یہ ’سیل ٹیم 6، ڈی ریڈ آن اسامہ بن لادن‘ کے نام سے 2012 کے امریکی انتخابات سے صرف 2 دن قبل ریلیز ہوئی تھی۔
امریکی صدر باراک اوباما 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ اپنی دوسری مدت کی انتخابی مہم کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ ریپبلیکنز اس فلم کی ریلیز کے اعلان پر خاصے سیخ پا بھی ہوئے۔ انتخابات کے نتائج آئے توسخت مقابلے کی پیش گوئیوں کے باوجود اوبامہ واضح سبقت لے کر دوسری مدت کے لیے صدر بن چکے تھے۔ان کے حلف اٹھانے سے قبل ایک دوسری فلم بھی ریلیز ہوئی لیکن یہ بحث اپنی جگہ موجود رہے گی کہ اس پہلی فلم نے ان کے مخالف مٹ رومنی کی شکست میں کتنا کردار ادا کیا۔
ایبٹ آباد آپریشن پر بننی والی فلمیں
امریکی حکام کے دعوے کے مطابق وار آن ٹیرر میں ان کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کی ہلاکت یکم اور 2 مئی کی درمیانی شب ہونے والے ایبٹ آباد آپریشن کے نتیجے میں ہوئی۔ اس کامیابی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکیوں کے خطرناک ترین دشمن کی ہلاکت ہالی ووڈ کے لیے زیادہ دلچسپی کی حامل نہیں رہی۔
اس کامیابی پر ہالی ووڈ نےآج تک صرف 2 فلمیں ہی بنائی ہیں اور یہ دونوں فلمیں ڈیموکریٹ امیدوار باراک اوبامہ کے دوسری بار عہدہ صدارت کے حلف سے قبل ہی ریلیز ہوئیں۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے سے لے کر ویت نام، عراق اور افغان جنگ کی ’کامیابیوں‘ پر فلمیں بنانے والوں نے اس ’کامیاب آپریشن‘ پر فلم کیوں نہیں بنائی، شاید اس کا جواب کوئی ہالی ووڈ کا فلم ساز ہی دے سکتا ہے۔
سیل ٹیم 6، ڈی ریڈ آن اسامہ بن لادن
اس فلم کا آغاز گوانتاناموبے جیل میں ایک مکالمے سے ہوتا ہے۔ جہاں تفتیشی افسر ایک قیدی کو ایجنسیوں کے حوالے کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ اس کے بعد پشاور، پاکستان کے نام سے کسی بھارتی بازار کا منظر دکھائی دیتا ہے جہاں کی دکانوں پر ہندی کا دیوناگری رسم الخط نمایاں ہے۔ دکھائی دینے والی گاڑیوں اور مسلمانوں کے حلیےپر بھارتی فلموں کی چھاپ واضح دکھائی دیتی ہے جو شاید امریکا میں بیٹھے ہوئے ناظرین محسوس نہ کر سکیں۔ اور یہ سب سی آئی اے کے ورجینیا میں قائم دفتر سے مانیٹر کیا جا رہا ہوتا ہے۔
پروڈکشن کےجھول
اگرچہ ایبٹ آباد آپریشن اور مذکورہ فلم کی ریلیز میں تقریباً ڈیڑھ برس کا مناسب وقت موجود تھا مگر اس سب کے باوجود یوں لگتا ہے جیسے فلم جلد بازی میں ریلیز کی گئی تھی۔ شکیل آفریدی کا کردار نبھاہنے والے فلم اسٹار کی ٹائی میں انتہائی بھونڈے انداز میں کیمرہ لگایا جاتا ہےجو واضح محسوس بھی ہو رہا ہوتا ہے۔
ویسے اس فلم میں زیادہ تر آپریشن کے عملی پہلوؤں کو دکھایا گیا مگر یہ دکھانے کے لیے جب فلم سازوں کو پاکستانی سرزمین کی اجازت نہ ملی تو انہوں نے بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر کھوپولی کا انتخاب کیا۔ اگرچہ ایبٹ آباد آپریشن پر بننے والی دوسری فلم زیرو ڈارک تھرٹی کا پاکستانی حصہ بھی بھارت ہی میں فلمایا گیا تاہم اس میں ایسی غلطیاں دیکھنے کونہیں ملتیں۔
حد تو تب ہوئی جب ایبٹ آباد کے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ سی آئی اے کے 2 ایجنٹس اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ سے نکلنے والی گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے مارکیٹ جا پہنچتے ہیں۔ مارکیٹ میں بن لادن کے گھر سےآئی ہوئی خوتین سبزی کی خریداری میں مصروف دکھائی دے رہی ہوتی ہیں جب اس دوران ایک سبزی فروش کے پاس ہندوستانی جھنڈا دکھائی دیتا ہے۔
ایک اور پہلو جو ہالی ووڈ میں پاکستان یا افغانستان کی لوکیشن ثابت کرنے کے لیے اکثر ہوتا ہے وہ اذان کی آواز ہے۔ اس فلم میں بھی یہ دیکھنے کو ملا لیکن اس کے علاوہ کہیں سے بھی اس فلم میں مقامی پن نظر نہیں آیا جو شاید امریکی ناظرین محسوس نہ کر سکے ہوں۔
فلم میں بیان کردہ حقائق
ویسے تو اس آپریشن سے متعلق حقائق سے پردہ گزشتہ برسوں میں وقتاً فوقتاً اٹھا ہے اس لیےمحض اٹھارہ مہینوں میں ریلیز ہونے والی فلم سےز یادہ توقعات ممکن بھی نہیں تھیں۔ ریلیز سے قبل ہی فلم کے ڈائریکٹر جان اسٹاک ویل نے یہ اعلان کیا کہ فلم میں پیش کردہ حقائق کو وائٹ ہاؤس نے مسترد یا قبول نہیں کیا۔ فلم کے مناظر میں باقاعدہ آپریشن کا حصہ صرف 15 سے 20 منٹ کے لیے دکھایا گیا جب کہ اس کی ریہرسل کے مناظر پوری فلم میں کئی بار مختلف انداز میں دکھائے گئے۔
اس آپریشن کی مانیٹرگ کے لیے سی آئی اے ہیڈ آفس کا کنٹرول روم ہی دکھایا گیا جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کی مانیٹرنگ وائٹ ہاؤس، پینٹاگون، افغانستان میں امریکی اڈے اور اسلام آباد میں واقع سفارتخانہ سے بھی کی جارہی تھی۔ اسی طرح آپریشن کے دوران اہلکاروں کے ہیلمٹ پر کیمرے واضح دکھائی دے رہے ہیں جب کہ اس حوالے سے امریکہ کا سرکاری موقف کچھ اور ہے۔ اسی طرح یہ بھی دکھایا گیا ہے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اس عمارت میں القاعدہ کے سربراہ کی موجودگی کےبارے میں علم تھا تاہم اپنے انٹرویوز میں وہ اس کی تردید کرچکے ہیں۔
کارکردگی
پروڈکشن اور دیگر کمزوریوں کے باوجود چونکہ یہ فلم ایبٹ آباد آپریشن کے صرف ڈیڑھ برس بعد ہی ریلیز کی گئی تھی سو شائقین کی توجہ کھینچنے میں کامیاب رہی۔ یہ فلم سینما میں ریلیز کرنے کی بجائے چونکہ نیشنل جیوگرافک پر دکھائی گئی تو ان کے مطابق اسے دیکھنے والوں کی تعداد ستائیس لاکھ تھی۔بجٹ کے حوالے سے زیادہ تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں مگر کم بجٹ کی اس فلم کے کاپی رائٹس اوباما کے حامی ہاروے ونسٹن نے 2 اعشاریہ 5ملین کے عوض خریدے تھے۔ ویسے یہ وہی ہاروے ونسٹن ہیں جن کہ خلاف 2017 میں ریپ کے الزامات سے می ٹو مہم نے زور پکڑا تھا۔
آخری بات نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک مضمون سے ہے جس کے مصنف نے لکھا کہ یہ فلم تو ایبٹ آباد آپریشن پر تھی مگر اس کے ہیرو باراک اوبامہ تھے، ویڈیو ایڈیٹنگ کی ٹیکنالوجی کا شکریہ۔