بھارت کی حالیہ شکست، جو پاکستان کے ہاتھوں دنیا کے سامنے ایک کھلی حقیقت کے طور پر اُبھری، محض ایک عسکری ناکامی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور نظریاتی جھٹکا ہے۔ یہ شکست بھارت کے اس طویل بیانیے کو چیلنج کرتی ہے جس کے تحت وہ خود کو خطے کی سب سے بڑی، طاقتور اور ناقابلِ تسخیر ریاست تصور کرتا آیا ہے۔ دہلی کے ایوانوں میں صرف عسکری نقصان کا ماتم نہیں ہو رہا، بلکہ ایک گہرا فکری بحران بھی جنم لے رہا ہے جو ریاست کے تصورِ طاقت، اس کی سیاسی حکمتِ عملی، اور داخلی توازن کو متزلزل کر رہا ہے۔
بھارت کی تاریخ میں شکست نئی نہیں۔ 1962 میں چین کے ہاتھوں ہزیمت، 1999 میں کارگل کی سرحدوں پر غیر متوقع پاکستانی پیش قدمی، اور کشمیر میں مسلسل مزاحمت، یہ سب واقعات بھارت کی عسکری برتری کے بیانیے کو بارہا چیلنج کر چکے ہیں۔ مگر حالیہ شکست ان سب سے مختلف ہے، کیونکہ اس نے ایک ایسے وقت میں بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جب وہ عالمی سطح پر (نئی دہلی کا ابھرتا سورج) بننے کا دعویٰ کر رہا تھا۔
اس وقت نئی دہلی میں ایک غیر اعلانیہ مگر شدید عسکری تجزیہ جاری ہے۔ بھارت اپنی دفاعی حکمتِ عملی، قیادت، اور اسلحہ جاتی ترجیحات کا ازسرِنو جائزہ لے رہا ہے۔ یہ بعید نہیں کہ بھارت اپنے عسکری بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے، نئی ٹیکنالوجی اپنائے، اور بین الاقوامی دفاعی معاہدوں کی طرف زیادہ جھکے، خاص طور پر امریکا، فرانس اور اسرائیل کی جانب۔ لیکن اس ساری عسکری دوڑ کو ایک بڑی حقیقت روک رہی ہے، اور وہ ہی جوہری توازن۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری طاقت کا توازن کسی بھی کھلی جنگ کو محدود کرتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ بھارت اب خفیہ اور غیر روایتی طریقوں سے پاکستان کو نشانہ بنانے کی راہ اپنائے، جیسا کہ سائبر جنگ، خفیہ ایجنسیاں، اور داخلی انتشار کو ہوا دینا۔
اس شکست کا دوسرا بڑا پہلو بھارت کی داخلی سیاست اور معاشرت پر اس کا اثر ہے۔ قوم پرستی کے جذبات پر پلنے والی حکومتیں جب شکست کھاتی ہیں تو وہ داخلی دشمن تراشتی ہیں۔ بھارت کی ہندو قوم پرست قیادت ممکنہ طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرائے گی، جیسا کہ اس سے پہلے پلوامہ حملوں کے بعد ہوا۔ میڈیا، جو پہلے ہی بڑی حد تک سرکاری بیانیے کا پرچارک ہے، اب اس شکست کو بھلا کر اندرونی غداروں کے خلاف فضا ہموار کرے گا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف سماجی کشیدگی بڑھے گی بلکہ ریاستی جبر کو مزید جواز ملے گا۔
اقتصادی طور پر، یہ شکست ایک خاموش زلزلہ ہے۔ اعتماد کی فضا متزلزل ہوگی، سرمایہ کاری میں ہچکچاہٹ پیدا ہوگی، اور دفاعی اخراجات میں اضافے سے تعلیم، صحت اور فلاحی منصوبے متاثر ہوں گے۔ یہ وہی منطرنامہ ہے جو 1962 کے بعد بھارت میں دیکھنے کو ملا تھا جب معاشی ترجیحات عسکری ترجیحات کے تابع ہو گئیں۔
اس شکست کا ایک بین الاقوامی پہلو بھی ہے جو کم اہم نہیں۔ امریکا اور فرانس جیسے اتحادیوں سے بھارت کو یقینی طور پر عسکری تعاون کی امید ہوگی، لیکن انہیں بھی اپنی ساکھ بچانی ہے۔ روس، جو بھارت کا دیرینہ دفاعی حلیف رہا ہے، اب اتنا غیر مشروط نہیں رہا۔ چین جو کہ پہلے ہی پاکستان کے ساتھ مصلحتی شراکت داری میں ہے اس شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوے لداخ کے محاذ پر بھارت کو دباؤ میں لا سکتا ہے یا معاشی منصوبوں کے ذریعے پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستیں بھی محتاط رویہ اپنائیں گی، کیونکہ ان کے لیے استحکام اولین ترجیح ہے، اور وہ کسی ایسی طاقت کے ساتھ کھل کر نہیں کھڑی ہوں گی جو خود عدمِ استحکام کا شکار ہو۔
اس سارے منظرنامے میں، پاکستان کے لیے یہ لمحہ فقط عسکری فتح کا نہیں، سیاسی تدبر اور حکمت کا بھی امتحان ہے۔ کامیابی کو سفارتی اور اقتصادی برتری کے لیے استعمال کیا جائے، یہی اصل کامیابی ہوگی۔ داخلی طور پر، یہ فتح عسکری اداروں کی ساکھ کو تقویت دے سکتی ہے، سیاسی قیادت کو استحکام فراہم کر سکتی ہے، اور قوم کو ایک نئے اعتماد کے ساتھ متحد کر سکتی ہے۔
آخر میں، بھارت آج جس مقام پر کھڑا ہے، وہ ایک چوراہا ہے: یا تو وہ شکست سے سبق سیکھ کر ایک نئے، حقیقت پسندانہ راستے پر گامزن ہو، یا ہٹ دھرمی اور انتقام کی راہ چن کر خود کو اور پورے خطے کو ایک اور خطرناک مرحلے میں دھکیل دے۔
پاکستان کے لیے بھی سوال یہی ہے: کیا وہ اس موقع کو قومی ترقی اور بین الاقوامی وقار میں تبدیل کر سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک نیا باب لکھا جا رہا ہے، اور قلم دونوں کے ہاتھ میں ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔