7 مئی کو شروع ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے بعد بین الاقوامی طور پر بہت کچھ بدل گیا ہے اور کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر تبدیلیاں پاکستان کے حق میں ہیں۔ جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان نے روایتی جنگ میں بھارت کو زمینی اور فضائی کارروائی میں ناکوں چنے چبوا دیے۔ اس پر دنیا بھر کے ممالک حیران ہیں۔ اور پاکستان اس وقت عالمی سطح پر ایک اہم ملک کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔
دوسرا بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا اور بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزام لگانا، اس ساری صورتحال نے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو برے طریقے سے مجروح کیا ہے۔
پاکستان کی دفاعی صلاحیت کا عالمی سطح پر اعتراف
اس مختصر جنگ کے بعد جس طرح سے پاک فضائیہ نے دشمن کے 06 جنگی جہاز گرائے اُن کے میزائلوں کو ناکام بنانے کے لیے جی پی ایس ٹیکنالوجی کا زبردست استعمال کیا اس سے دنیا بھر میں بالخصوص مسلم ممالک میں پاکستان کو زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اس لڑائی سے قبل پاکستان کو قدرے ایک ناکام اور غیر مستحکم ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن اس جنگ نے نہ صرف اندرون ملک سیاسی استحکام میں مدد دی بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے ایک مضبوط ملک ہونے کا اعتراف کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی سے پاکستانی معیشت کے لیے نئے دروازے کھل گئے، مگر کیسے؟
امریکی دفاعی میگزین دی نیشنل انٹرسٹ نے لکھا کہ 7 مئی کو شروع ہونے والی جھڑپیں پاکستان کی واضح جیت کی صورت میں سامنے آئیں حالانکہ دفاعی ماہرین کا خیال تھا کہ بھارت کی عددی اکثریت کی وجہ سے اس کا پلڑا بھاری رہے گا۔
بھارت کی سفارتی تنہائی
اس تنازعے کی شروعات سے بھارت کو وہ بین الاقوامی حمایت میسر نہیں آئی جس کی وہ توقع کر رہا تھا۔ حتٰی کہ امریکا جیسے تزویراتی حلیف نے بھی بھارت کی حمایت سے انکار کیا اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو پہلگام واقعے کا ذمے دار قرار دینے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
علاقائی طاقت کے توازن میں تبدیلی
اس مختصر لڑائی کے دوران پاکستان کو چین اور ترکیے کی تکنیکی مدد حاصل رہی۔ اس سے پاکستان ایک اہم جغرافیائی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا اور نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی تناظر میں پاکستان ایک معتبر ملک کے طور پر سامنے آیا۔
بھارت کی سبکی
اس تنازعے میں بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کے فوراً بعد پاکستان کو ملوث ظاہر کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں۔ بین الاقوامی برادری نے کسی طور پر بھی بھارت کے مؤقف کی حمایت کی بجائے دونوں ملکوں کو جنگ سے بچنے کی تلقین کی۔
مسئلہ کشمیر کا عالمی سطح پر اُجاگر ہونا
پاک بھارت لڑائی کے بعد سب سے اہم پیش رفت مسئلہ کشمیر کا ایک بار پھر سے عالمی سطح پر اُجاگر ہونا ہے۔ امریکا کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دینے کا مطلب ہے کہ وہ اِس کو ایک بڑے اور حل طلب مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اور اسی مسئلے کے نیچے بھارت کی جانب سے پیدا کردہ ایک مسئلہ معاہدہ سندھ طاس ہے۔
پاکستان کے لیے مفید صورتحال، سب سے زیادہ سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے؛ ایمبیسیڈر مسعود خالد
پاکستان کے سابق سینئر سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس لڑائی کے بعد پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس جنگ سے پاکستان کو اسٹریٹجک ایڈوانٹیج ملا ہے، اُس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں۔
بھارت جو ہم سے 7 گنا بڑا ملک ہے اور وہ دنیا کو بتاتا تھا کہ روایتی جنگ میں پاکستان اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کیسے پاکستان نے کامیابی کے ساتھ اپنا دفاع کیا ہے۔ جس سے پاکستان کی ساکھ بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کی شکست کے بعد کا منظرنامہ
دوسرا فائدہ پاکستان کو یہ ملا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سرد خانے سے نکل کر ایک بار پھر دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔ اور پھر اس مسئلے کو لے کر امریکا جس طرح حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ان کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں بھی امریکی حکومت نے پاک بھارت تنازعے کے بعد دونوں ملکوں کو پیش کش کی تھی کہ وہ دونوں کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کر سکتا ہے۔ لیکن اُس وقت امریکی کوششیں اس قدر زیادہ نہیں تھیں جتنی اس وقت ہیں تو بنیادی طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ایمبیسیڈر مسعود خالد نے کہا کہ پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح سے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھتا ہے اور بین الاقوامی فورمز پہ اسے اجاگر کرتا ہے، یورپی ممالک میں اس مسئلے کو اُجاگر کرتا ہے۔ گو کہ بھارت ان تمام بین الاقوامی کوششوں کی مخالفت کرے گا کیونکہ اُس کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان یہاں دہشتگردی کرواتا ہے۔ وہ پاکستان کو دہشتگرد ریاست ڈکلیئر کروانا چاہتا ہے۔ لیکن اب جب صدر ٹرمپ نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر بات چیت کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ کاوشیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے عالمی میڈیا کی نظر میں پاک-بھارت سیزفائر، امن یا خاموش طوفان؟
پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدہ دونوں ایک جیسے مسئلے ہیں لیکن سندھ طاس معاہدہ تو پاکستان کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کو اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پانی کے مسئلے پر جوہری جنگ بھی ہو سکتی ہے۔
بھارت یہ چاہے گا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے تک ہی محدود رہے: ایمبیسیڈر وحید احمد
پاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر وحید احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی جارحیت اور اس کے بعد پاکستانی آپریشن بنیان المرصوص میں پاکستان دفتر خارجہ نے دینا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو بھی انگیج رکھا۔
اس مسئلے کی شروعات میں امریکا کا روّیہ تھا کہ یہ 2 ملک تو آپس میں لڑتے رہتے ہیں، خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن اس مسئلے میں سب سے اہم چیز جو ہوئی ہے وہ یہ کہ اس سے قبل دنیا ہم پر یقین نہیں کرتی تھی کہ ہم روایتی جنگ میں بھارت کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں۔
کارگل اور 2019 بالاکوٹ حملے کے وقت دنیا پاکستان کا ردعمل دیکھ چکی تھی اور دنیا کا خیال نہیں تھا کہ پاکستان اتنی قوّت کے ساتھ اور اتنی دیر تک بھارت کو کڑا جواب دے سکتا ہے۔ لیکن پاکستان نے اس لڑائی میں جدید ترین ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرکے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ خاص طور پر 2 مئی 2012 ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان نے اپنے ریڈار کے نظام کو حیران کن حد تک مضبوط بنایا ہے جس سے مغربی دنیا حیران ہو گئی اور دوسرا اس لڑائی میں جو چینی ہتھیاروں کی آزمائش ہوئی ہے تو اس کے بعد پھر امریکا کو مداخلت کرنا پڑی۔
یہ بھی پڑھیے آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی، افواج پاکستان نے جو کہا کر دکھایا
اب امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کی ہے تو اس پر بھارت تلملائے گا کیونکہ وہ کشمیر کو مسئلہ مانتا ہی نہیں۔ لیکن اب بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے صدر کی عزت بھی تو رکھنی ہے۔ لیکن بھارت ان مذاکرات سے نکلنے کی مسلسل کوشش کرے گا۔
ایمبیسیڈر وحید احمد نے کہا کہ اب جو سیز فائر ہوا ہے یہ مستقل نظر آتا ہے کیونکہ اِس کی درخواست بھارت نے کی ہے۔ جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے تو بھارت یہ چاہے گا کہ پاکستان صرف اُس معاہدے کے بارے ہی میں بات کرے اور اُس سے آگے مسئلہ کشمیر تک بات نہ بڑھ سکے۔ لیکن پاکستان کو اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کو فعال رکھنا ہے۔
پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے: علی سرور نقوی
سابق سفارتکار اور سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ پہلگام واقعے، بھارتی حملے اور آپریشن بنیان المرصوص کے بعد پاکستان کو بہت فائدہ ملا ہے۔ اور بھارت کا ایک بھی مقصد حل نہیں ہو سکا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ دنیا اس بات کو تسلیم کرے کہ پاکستان کی سرزمین سے اُس کے ہاں دہشتگردی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات دنیا میں کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کی۔ پوری دنیا میں بھارت کا بیانیہ کسی ملک نے نہیں خریدا۔
دوسرا پہلگام واقعے سے کشمیر کا اندرونی خلفشار سامنے آ گیا۔ امریکا کی جانب سے ثالثی کی کوشش کامیاب ہوتی ہے کہ ناکام اس کا انحصار بھارت کے روّیے پر ہے کیونکہ وہ ہٹ دھرمی سے کہتا ہے کہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ ثالثی کی تمام کوششوں کو رد کرتا چلا آیا ہے۔
اس مسئلے میں پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اے اور آرٹیکل 25 اے بحال ہو تاکہ اُس علاقے کی کم از کم متنازعہ حیثیت تو بحال ہو اور پھر اُس پہ گفتگو ہونی چاہیے۔