پاکستان میں ان دنوں گندم کی پیداوار اور اس کی قیمت میں اضافہ زیر بحث ہے جب کہ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں گندم کی فصل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور رواں سال گندم کی پیداوار گزشتہ 10 برسوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کو ایک بار پھر گندم برآمد کرنے والا ملک بنادیا جائے گا۔ انہوں نے کسانوں اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس سیلاب اور بارشوں کے باوجود گندم کی بمپر فصل بروقت فیصلوں اور بہترین گورننس کا ثبوت ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 2022 کے مقابلے میں اس سال گندم کی پیداوار میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اس قدر نہیں کے اسے بمپر فصل قرار دیا جا سکے۔
واضح رہے کہ سال 2022 میں گندم کی پیداوار 2 کروڑ 64 لاکھ ٹن تھی جب کہ رواں برس اس کی پیداوار 1.6 کے اضافے کے ساتھ 2 کروڑ 68 لاکھ ٹن پر پہنچنے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں گندم ملک کے قابل کاشت رقبے کے 37 فیصد حصے پر ہوتی ہے اور پاکستان میں سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل گندم ہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود ملک گزشتہ کئی برسوں سے گندم میں خود کفیل نہیں ہو سکا اور مقامی پیداوار کے ساتھ اسے بیرون ملک سے گندم منگوا کر ملکی ضرورت کو پورا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے سال کی گندم کی پیداوار ملک میں آٹے کی کمی کو پورا نہیں کرسکی۔ جس کے باعث حکومت نے روس سے ساڑھے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کی پہلی کھیپ جنوری (3 لاکھ ٹن) میں کراچی پہنچی تھی۔
پاکستان میں محمکہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 میں تقریباً ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کی گئی تھی اور سنہ 2022 کے جولائی تک 67 کروڑ ڈالر کی گندم ملک میں درآمد کی گئی۔ اگر گزشتہ برس اور رواں سال آٹے کی قیمیتوں میں فرق کی بات کی جائے تو ادارہ شماریات کے مطابق موجودہ سال اپریل کے آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت گزشتہ سال اپریل کے آخری ہفتے کے مقابلے میں 175 فیصد زیادہ ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں آٹے کی فی کلو قیمت 125 روپے کلو سے 150 روپے کلو تک ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا پوتا ہے کہ کیا گندم کی حالیہ پیداوار ملک میںآٹے کی قلت کو پورا کر پائے گی؟
پنجاب فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر کاشف شبیر نے وی نیوز کو بتایا کہ حالیہ گندم کی پیداوار ملک میں آٹے کے بحران کو بالکل ختم کر سکتی ہے مگر اس کے لیے حکومت کو پالیسی بنانا ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت کو اوپن مارکیٹ میں کو اوپن مارکیٹ میں گندم کی خرویدوفرخت کو آزاد بی چھوڑنا پڑے گا۔
کاشف شبیر نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ حکومت ملز پر پابندیاں ختم کر کے اس مصنوعی قلت کو ختم کرے،کیوں کہ جب ملز کے پاس گندم نہیں ہوگی تو سارا سال حکومت کو مسئلہ ہوگا اور پھر اسے گندم کی خریداری پر اپنی سبسڈی شمار کرنا پڑے گی۔‘
وی نیوز کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اگر اس فصل سے فائدہ اٹھانا ہے تو ملز کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنے اسٹاک کو پورا کرے، دوسرا حکومت اپنا اسٹاک محدود رکھے اور حکومت اپنے 3.5 ملین والے ٹارگٹ کو مزید نہ بڑھائے تاکہ اکتوبر نومبر تک پرائیویٹ سیکٹر اپنی خریدی ہوئی گندم سے مارکیٹ کی ضرورت پوری کرتا رہے اور پھر حکومت کوٹہ شروع کرے‘
کاشف شبیر کا مزید کہنا تھا کہ گندم کی پیداوار سے فائدہ اٹھانے کا انحصار صرف حکومت کی پالیسی پر منحصر ہے اور اگر حکومت اچھی پالیسی بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یقینا اس کا فائدہ ہوگا۔
جنوبی پنجاب کسان بورڈ کے صدر حافظ حسنین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خطے میں گندم کی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ کمی آئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ راجن پور، ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان،، مظفر گڑھ اور لیہ میں گندم کے ٹارگٹ پورے نہیں ہوئے .کیوں کہ کچھ علاقوں کو سیلاب اور بارشوں نے بری طرح متاثر کیا ہے۔
انہوں نے حکومتی دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے تو کسانوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا بلکہ ڈیزل، ٹریکٹر اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جو ٹریکٹر 2 سال پہلے تک 28 لاکھ کا ملتا تھا اب وہ 45 لاکھ کا ہو گیا ہے اور کسانوں کے لیے بجلی کا فی یونٹ 5 روپے سے بڑھا کر 30 روپے سے زائد کر دیا گیا۔‘
حافظ حسنین نے توجہ دلائی کہ کسانوں کو بنا سود کے قرضے بھی نہیں دیے گئے اور کسان پیکیج میں کسانوں کے لیے کوئی ریلیف بھی نہیں رکھا گیا۔