وہ شہر تھا ہی ایسا کہ ہر حکمران اس پر قبضے کی خواہش رکھتا تھا۔ اسے 11مئی 330 ء میں قسطنطین اعظم نے اپنے دارلحکومت کا درجہ دیا اور اس طرح مشرق میں سلطنت رومہ کے مرکز کی بنیاد استوار ہوئی۔ کئی صدیوں تک یہ شہر بیزنطینیوں کے مرکز کی حیثیت سے سراٹھائے کھڑا رہا۔ عربوں نے اپنے دورعروج میں کئی بار اس شہر کو فتح کرنے کی سعی کی لیکن کلی فتح حاصل نہ کر سکے۔ عربوں کے بعد ترکوں نے بھی اس امر میں کوشش کی کہ کسی طرح اس عظیم شہر کو فتح کر لیں لیکن مکمل کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
اپنے طبعی جغرافیے کی وجہ سے یہ شہر تین اطراف سے سمندرمیں گھرا ہوا تھا اور خشکی کا صرف ایک راستہ تھا جو تین فصیلوں کی وجہ سے ناقابل شکست ہو جاتا تھا۔ شمال میں شاخ زریں اور جنوب میں بحر مارمورا تھا۔ خشکی کا راستہ مغربی جانب تھا جہاں تین زبردست فصیلیں تعمیر کی گئی تھیں۔ توپوں کی ایجاد سے قبل یہ فصیلیں ہر قسم کے حملہ سے محفوظ خیال کی جاتی تھیں۔ اندرونی طرف کی دونوں دیواریں انتہائی موٹی تھیں جن پر 170 فٹ کے فاصلے سے مضبوط برج بنے ہوئے تھےاور ان دیواروں کا درمیانی فاصلہ 60 فٹ تھا۔ باہر کی جانب دوسری اور تیسری دیوار کے بیچ 60 فٹ چوڑی اور 100 فٹ گہری خندق تھی۔ یہ دیواریں پانچویں صدی عیسوی میں شہنشاہ تھیوڈوسیس دوم نے تعمیر کروائی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ اپنی آبادکاری کے بعد سے یہ شہر 29 بار محاصرہ کا شکار ہوا، جن میں سے 8 حملوں میں فوجیں شہر میں داخل ہو سکیں لیکن کلی فتح کسی حملے میں حاصل نہ کی جا سکی۔ 11 حملے مسلمانوں نے کیے۔ بالآخر عثمانی ترکوں نے ایشائے کوچک میں اپنی سلطنت مستحکم کی تو قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی خواہش ان میں زور پکڑنے لگی۔ عثمانی ترکوں کا تعلق اوغوزترک قبائل سے تھا جو 13ویں صدی عیسوی میں منگول حملوں میں جان بچا کے ایشیائے کوچک کی طرف بھاگے تھے جہاں انہوں نے اپنی سلطنت کی بنیادیں استوار کرنی شروع کیں اور جلد ہی ایک بڑی اور طاقتور سلطنت کے طور پر ابھرے۔ یہاں انہیں اپنے فطری جنگی جوہر دکھانے کا اور یورپ سے آنے والے حملہ آور صلیبیوں کو روک کر خدمت اسلام کا موقع ملا۔ یورپی حملہ آور عموما ایشیائے کوچک کے راستےسےحملہ آور ہوتے تھے۔ عثمانیوں کو خوب معلوم تھا کہ جب تک وہ قسطنطنیہ کو فتح نہیں کرلیتے، مشرق میں یورپی حملہ آوروں کا راستہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔ اسی وجہ سے عثمانی فرمانروا سلطان بایزید یلدرم نے آبنائے باسفورس کے مشرقی ساحل پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کروا کے قسطنطنیہ کا محاصرہ شروع کر دیا لیکن تیمور لنگ کے حملوں کی وجہ سے اسے محاصرہ اٹھانا پڑا۔ بعد ازاں سلطان مراد نے شاہ قسطنطنیہ کی غداری کے پیش نظر قسطنطنیہ پر حملہ کیا لیکن شاہ مینوئل کی اطاعت اور خراج کے وعدہ پر سلطان مراد نے محاصرہ اٹھا لیا۔
سلطان مراد کی وفات سے کوئی 3 سال قبل قسطنطین یازدہم تخت قسطنطنیہ پر بیٹھ چکا تھا۔ سلطان مراد کی وفات کے وقت اس کا نوجوان بیٹا محمد ریاست ایدین میں تھا۔ اس کو باپ کی وفات کی خبر موصول ہوئی تو فورا درہ دانیال کی طرف روانہ ہوا اور اعلان کرتا گیا کہ ’جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں وہ میرے ساتھ آئیں‘۔
جلد ہی ادرنہ پہنچ کے محمد نے تخت سلطنت پہ قبضہ کیا اور حکومت کے استحکام کی جانب متوجہ ہوا۔
قسطنطین یازدہم نے بجائے مبارک باد دینےکے اس نوجوان سلطان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ایک مطالبے کے ذریعے مشتعل کر دیا۔ عثمانی سلاطین میں رواج چلتا آ رہا تھا کہ انتشار پسند شہزادوں کو وہ قسطنطنیہ میں نظر بند کروا دیتے تھےاور مصارف خود برداشت کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک اورخاں نامی شہزادہ جو کہ سلطان بایزید یلدرم کا پوتا تھا، قسطنطنیہ میں نظر بند تھا۔ قسطنطین یازدہم نے اس کے مصارف میں اضافے کا مطالبہ کر دیا اور یہ گمان کیا کہ ناتجربہ کارنوجوان سلطان محمد اس قابل نہیں کہ شاہ قسطنطنیہ سے مخاصمت مول لے سکے۔ سلطان محمد نے قسطنطین یازدہم کے مطالبے کو نرمی سے ٹال دیا کیونکہ وہ ایشیائے کوچک کی شورشیں رفع کرنے میں مشغول ہو گیا تھا۔
سلطان کی نرمی کے باوجود وزیراعظم خلیل پاشا اپنا غصہ ضبط نہ کر سکا اور سفیر قسطنطنیہ کو کہلا بھیجا ’تمھارا جنون قسطنطنیہ کو سلطان کے ہاتھوں میں دے کر رہے گا۔ تم لوگ بے شک یورپ میں اورخاں کے سلطان ہونے کا اعلان کروادواور اپنی مدد کے لیے اہل ہنگری کو بھی بلا لو۔ اس کے علاوہ تم جو صوبے لے سکتے ہو وہ بھی لے لو لیکن جلد ہی تمہیں بازنطینی سلطنت کا خاتمہ بھی نظر آجائے گا‘۔
سلطان نے اب قطعی فیصلہ کر لیا تھا کہ قسطنطنیہ کو فتح کر کے عثمانی سلطنت کا جزو بنا دیا جائے۔ پیشگی تدبیروں کو اختیار کرتے ہوئے اس نے ایشیائے کوچک کی شورشیں ختم کیں، امیر کرمانیہ سے صلح کر کے اس کی لڑکی سے نکاح کر لیا، ہونیاڈے سے صلح کر کے شمالی یورپ کے خطرے کا خاتمہ کیا اور موریا میں فوجیں بھیج کر قسطنطنیہ کی امداد کا راستہ روک دیا۔ اس کے بعد قسطنطنیہ سے 5 میل کے فاصلہ پر ایک قلعہ کی تعمیر میں مشغول ہوا جو آبنائے باسفورس کے یورپی ساحل پر سلطان بایزید یلدرم کے بنوائے ہوئےایشیائی ساحل کے مقابل تھا۔یہ قلعہ 1452ء کے موسم سرما سے قبل تیار ہو گیا جس کے بعد تمام آبنائے باسفورس ترکوں کے قبضے میں آگیا۔ مزید تیاریوں کے سلسلے میں سلطان نے ڈیڑھ لاکھ فوج اکٹھا کی اور اپنی نگرانی میں عظیم الشان توپیں تیار کروائیں۔ اس سلسلے میں اربان نامی ایک ہنگری کے انجینیر سے ایک زبردست توپ بنوائی جس کے سنگی گولوں کا قطر ڈھائی فٹ تھا۔ اس کے علاوہ 180 جہازوں کا ایک بحری بیڑا تیار کروایا۔
دوسری طرف قسطنطین یازدہم نے بھی دفاعی تیاریاں شروع کر دیں لیکن عیسائیوں میں نفاق عام پایا جاتا تھا۔
6 اپریل 1453ء کو سلطان نے قسطنطنیہ کا محاصرہ شروع کیا۔ دونوں اطراف نے خوب داد شجاعت دی۔ وسط اپریل میں ایک بحری معرکہ پیش آ گیا جس میں ترکوں کے بیڑے کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔سلطان نے اس ہزیمت پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ آبنائے باسفورس کے زیادہ گہرے پانیوں میں اس کا بیڑا، طاقتورعیسائی بحری بیڑے کے مقابل نہیں ٹک سکتا ۔ اس کا ایک ہی حل تھا کہ وہ کسی طرح اپنی کشتیوں کو بندرگاہ کے بالائی حصے میں منتقل کر دے جہاں پانی تنگ تھا اور اس حصے میں عیسائیوں کے بڑے جہاز کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ لیکن سمندری راستے سے اس حصے تک کشتیوں کو لے جانا ممکن نہ تھا۔ آبنائے باسفورس اور قسطنطنیہ کی بندرگاہ کے مابین 5 میل کا خشکی کا ٹکڑا اگر نہ ہوتا تو وہ اپنی کشتیاں بہ آسانی بندرگاہ قسطنطنیہ تک لے جاتا۔ اس مسئلے کا سلطان نے انوکھا حل نکالا۔ لکڑی کے تختوں سے پانچ میل کی ایک سڑک بنوائی گئی اور ان لکڑی کے تختوں کو چربی سے خوب چکنا کر دیا گیا۔ ان تختوں پر سے سلطان نے اپنی کشتیاں بیلوں کی مدد سے کھنچوا کر گزاریں اور بندرگاہ قسطنطنیہ تک پہنچا دیں اور اس محفوظ حصے کی طرف سے حملہ آور ہو گیا۔ قسطنطین کو مجبوراً اس سمت میں بھی فوجوں کو تقسیم کرنا پڑا جس کی وجہ سے اس کی قوت میں نمایاں کمی واقع ہو گئی۔
24 مئی 1453ء کو سلطان نے قسطنطین یازدہم کو پیغام بھیجا ’شہرہمارے حوالے کر دو تو رعایا کی جان و مال سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا اور قسطنطین کو موریا کی حکومت دے دی جائے گی‘۔ قسطنطین نے اس کو منظور نہ کیا اور جنگی دفاع جاری رکھا۔ بالآخر سلطان نے اپنی فوج میں اعلان کروا دیا ’29 مئی کو آخری حملہ کیا جائے گا‘۔
مولانا سعید احمد کے مطابق ’20 جمادی الاول (29 مئی1453ء) کا دن حملہ کے لیے مقرر تھا، اس رات تمام لشکر دعا اور عبادت میں مشغول رہا، ہر طرف سے تسبیح و تہلیل کی صدائیں آتی تھیں۔ دن نکلتے ہی نماز فجر ادا کرنے کے بعد مسلمان فصیل کی طرف بڑھے۔ رومیوں نے نہایت ہمت و پامردی سے مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ قیصر روم قسطنطین اسی جنگ میں مارا گیا۔ دوپہر تک جنگ ہوتی رہی اور رومی اسلامی فوج کے پے در پے حملوں کے سامنے ایک ناقابل جنبش دیوار استقامت بنے کھڑے رہے لیکن ادھر محمد بھی عزم و ثبات کا پیکر تھا۔ اس نے جدید توپوں سے فصیل پر گولہ باری کاسلسلہ جاری رکھا اور پھر آخر میں اپنی فوج کا ایک خاص دستہ لیکر آگے بڑھا۔ رومی اس وقت لڑتے لڑتے بالکل خستہ ہو چکے تھے۔ ان میں اس جدید حملہ کی تاب نہ تھی اور ادھر مسلسل اور بےپناہ گولہ باری سے فصیل کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے تھے ۔ نتیجہ یہ ہواکہ دیوار ٹوٹی اور سپاہیوں کا ایک دستہ اند ر داخل ہو گیا۔ اس کے بعد اور دوسرے دستے بھی شہر میں داخل ہو کر اس پر قابض ہو گئے‘۔
شہر پر ترکوں کے قبضے کے بعد سلطان بھی اپنے وزرا و اعیان کے ساتھ ظہر کے وقت شہر میں داخل ہو گیا اور مشہور گرجے ایا صوفیہ کے دروازہ پر پہنچا۔ یہاں اس کے حکم سے اذان دی گئی اور نماز ظہر ادا کی گئی۔ یہ مشہور اور قدیم گرجا مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی دن سے سلطان کا لقب ’فاتح‘ پڑااور اس نے قسطنطنیہ کو اپنا دارلخلافہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان نے اپنے القاب میں قیصر روم کا اضافہ کیا۔
عیسائیوں سے رواداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ، دعوت اسلام میں سلطان کی رواداری کے متعلق رقم طراز ہیں’سلطان محمد ثانی نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے اور شہر میں امن قائم کر لینے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ عیسائیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ اعلان کیا کہ میں یونانی کلیسا کا محافظ اور سرپرست ہوں۔ عیسائیوں کی ایذا رسانی کی سختی سے ممانعت کر دی گئی اور سلطان نے ایک فرمان جاری کیا جس کے بموجب قسطنطنیہ کے نئے بطریق اور اس کے جانشینوں کو اور ان تمام اساقفہ کو، جو اس کے ماتحت تھے، ان کے تمام قدیم اختیارات اور ذرائع آمدنی، جو ان کو گزشتہ حکومت میں حاصل تھے، واپس کر دیے گئے۔ جن قواعد و ضوابط سے وہ مستثنیٰ تھے، ان سے بدستور مستثنیٰ رکھا گیا‘۔
قسطنطنیہ کی فتح کے تیسرے روز حضر ت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار دریافت ہوا ۔ سلطان نے وہاں ایک مسجد تعمیر کروائی اور اسی وقت سے یہ دستور ہوا کہ ہر نیا سلطان تخت نشینی کے موقع پر اسی مسجد میں حاضر ہوتا جہاں عثمان اول کی تلوار حمائل کر تا جو رسم تاج پوشی کے قائم مقام سمجھی جاتی۔
قسطنطنیہ کے نظام کو مستحکم کرنے کے بعد سلطان نے مزید پیش قدمی کی اور فتوحات کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔ 1454ء میں یونان نے خراج دینا منظور کیا۔ اس کے بعد سرویا نے صلح کر کے خراج دینا قبول کیا۔ 1460ء تک موریا کے تمام علاقے فتح کر کے سلطنت عثمانیہ میں داخل کر دیے گئے اور 1462ء میں بوسنیا بھی سلطنت عثمانیہ کا صوبہ بن گیا۔یونانی مجمع الجزائر اور بحیرہ روم کے متعدد جزائر پر قبضہ کر لیا گیا۔ البانیہ کے متعدد قلعے فتح کیے گئے اور ہنگری پر بھی فوج کشی کی گئی۔ جزیرہ رہوڈز پر بھی حملہ کیا گیا لیکن فتح نہ کیا جا سکا۔اگست 1480ء میں اوٹرانٹو کو فتح کر لیا گیا جو اٹلی کا دروازہ سمجھا جاتا تھا۔
خیال تھا کہ اوٹرانٹوکی فتح کے بعد سلطان رومہ پر حملہ آور ہو گا کیونکہ ایک نئی مہم کے لئے اس نے فوجیں اکٹھا کرنی شروع کر دی تھیں لیکن اسی دوران اچانک 3 مئی 1481ء کو وہ وفات پا گیا۔ اس وقت سلطان کی عمر 51 برس تھی ۔ سلطان کو اس کی تعمیر کردہ مسجد میں قسطنطنیہ ہی میں دفن کیا گیا اور یہ پہلا عثمانی سلطان تھا جو اس نئے دارلسلطنت میں دفن ہوا۔
سلطان محمد فاتح نے فتوحات کے ساتھ ساتھ انتظام سلطنت کو بھی مستحکم کیا اور رفاعہ عامہ کے کاموں کی طرف خصوصی توجہ دی۔ دستور کو مرتب کیا گیا اور باقاعدہ ’قانون نامہ‘ آئین سلطنت کے طور پہ نافذ کیا گیا۔ انتظام سلطنت کے استحکام کو ظاہر کرنے کے لیے قانون نامہ میں سلطنت کو ایک خیمے سے تشبیہ دی گئی جو 4 ستونوں پر قائم ہے، یعنی وزرائے سلطنت، قضاۃ عسکر، دفتردار(خازن) اور نشانجی(معتمد سلطنت)۔علما پر خصوصی توجہ دی گئی کیونکہ قانون نامہ کی رو سے مذہب و عدالت کے عہدہ داروں کا نظام علما کی جماعت پر منحصر تھا جو قضاۃعسکر میں آتے تھے اور سلطنت کا ایک ستون سمجھے جاتے تھے۔
بلاشبہ قانون نامہ کے زریعے کی جانے والی اصلاحات سلطان کی بیدار مغزی اور اعلیٰ فکری صلاحیت کا پتا دیتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی قانون نامہ میں ایک ایسا خونی قانون بھی تھا جو تمام اصلاحات کو داغدار کر جاتا تھا یعنی برادرکشی کا قانون۔ سلطان نے برادر کشی کو دستور حکومت میں شامل کر دیا ’میرے فقہا کی اکثریت نے یہ فتویٰ صادر کیا ہے کہ میرے جانشینوں میں سے جو تخت پر بیٹھیں وہ دنیا کے امن و امان کی غرض سے اپنے بھائیوں کو قتل کر سکتے ہیں، ان کا فرض ہو گا کہ اس پر کاربند ہوں‘۔ اس قانون کے دوررس نتائج انتہائی خوفناک نکلے اور ایک عرصے تک عثمانی سلاطین اس پر عمل کرتے رہے۔ گو سلیمان اعظم نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد آنے والے سلاطین نے یہ رسم جاری رکھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ سلطان مراد ثالث نے اپنے پانچ بھائیوں کو اور اس کے بیٹے محمد ثالث نے اپنے 19 بھائیوں کو اس قانون کی رو سے قتل کروا دیا۔
سلطان محمد ثانی 30 مارچ 1432ء کو ادرنہ میں سلطان مراد دوم اور ہما خاتون کے ہاں پیدا ہوا تھا اور 2 بار سلطنت کا بوجھ سنبھالا تھا۔ سلطان مراد دوم زاہدانہ طبیعت کا حامل تھا چنانچہ اس نے اپنے فرزند محمد کو 12 سال کی عمر میں سلطان نامزد کر کے تخت سے دستبرداری اختیار کی۔ جنگ ورنا کے دوران محمد نے اپنے والد سے دوبارہ تخت سنبھالنے کی درخواست کی لیکن مراد نے انکار کر دیا جس پر محمد نے ان کو لکھا کہ ’اگر آپ سلطان ہیں تو آئیں اوراپنی ا فواج کی کمان سنبھالیے لیکن اگر میں سلطان ہوں تو میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ میری فوج کی قیادت سنبھالیں‘۔ مجبوراً مراد کو دوبارہ سلطنت کا بار اٹھانا پڑا۔ دوسری بار سلطان مراد کی وفات پر محمد نے1451ء میں تخت سنبھالا۔ سلطان محمد ساتواں عثمانی سلطان تھا۔