پنچایت کا نظام پنجاب میں صدیوں سے رائج تھا۔ ذرائع آمدورفت کی کمی اور مرکز سے دوری کے باعث دور دراز دیہاتوں میں معاشرتی زندگی کو چلانے کی غرض سے 5 عزت دار اور سچے لوگوں کی ایک کونسل بنا دی جاتی تھی جس میں ایک شخص سر پنچ ہوتا تھا۔ اس سے چھوٹے موٹے مقدمات، لڑائیاں جھگڑے سہولت سے طے ہو جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت نے شادی شدہ خواتین اساتذہ کا بڑا مسئلہ حل کردیا
اس وقت کے حساب سے پنچ بے حد دانا اور زیرک لوگ ہوتے تھے، جو تعلیم، خاندان، مال، ہر شے میں ممتاز ہوتے تھے۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ یہ نظام کمزور پڑتا گیا، زمیندارانہ نظام میں گو یہ ساتھ کے ساتھ چلتا رہا مگر اتنا مضبوط نہ رہا۔
پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے سنہ 2019 میں مصالحتی بل منظور کروایا تھا جس میں حلقے کے منتخب نمائندوں کو پنچایت کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ اس مصالحتی بل میں سیاسی لوگوں کو ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے ایم پی اے امجد علی جاوید کی جانب سے جسٹں کمیونٹی پنچایت بل 2025 پیش کیا گیا ہے۔
اس بل میں تجویز کیا گیا کہ ہے کہ پنجاب کی تمام یونین کونسل میں پنچایتی نظام کو دوبارہ سے شروع کیا جائے۔
بل میں تجویز کیا گیا کہ جس یونین کونسل میں پنچایت ہوگی اور اس کے 20 کے قریب ممبرز ہوں گے۔ ضلعی ایڈمنسٹریشن 20 لوگوں کو منتخب کرئے گی۔
اس بل کے مطابق 20 لوگ جو پنچایت کے ممبرز بنیں گے۔ ان کی تعلیمی قابلیت کم سے کم میٹرک ہونا لازمی ہے، پنچائیت کے ممبرز پر کوئی ایف آئی آر درج نہ ہو اور وہ علاقے میں اچھی شہرت کے مالک ہوں۔
بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ پنچایت جو فیصلے دے گی اس پر سرکار عملددرآمد کروائے گی۔ بل کے مطابق پنچایت دیوانی، فوجداری کے کیسز سن سکے گی۔ جن مقدمات کی سزا 3 سال تک ہوگی ایسے مقدمات لوکل پنچایت سن سکے گی۔ یہ مقدمات لوکل پنچایت ہی حل کرے گی۔
مزید پڑھیے: پنجاب اسمبلی : جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے قرارداد منظور
اگر قتل کا مقدمہ ہے تو اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ قتل کے مقدمے والے دونوں فریق دراخوست دیں تو پنچائیت وہ کیس بھی سن سکے گی۔ اس طرح کے مقدمات لوکل پنچایت کے لیے لازمی قرار نہیں دیے گئے ہیں۔
کمیونٹی جسٹس بل کے تحت پنچایت کو کیس کا فیصلے کرنے کے لیے 60 دن تجویز کیے گئے ہیں اور اس کے پاس سزا دینے کا بھی پورا اختیار تجویز کیا گیا ہے۔
پنچایت کے 20 میں سے 3 ممبرز کیس سن سکیں گے۔ فریق 20 مبرز میں سے کسی ایک ممبر کو پنچایت کے لیے چن سکتا ہے کہ وہ اس کیس کا فیصلہ کرے۔
ن لیگ کے ایم پی اے نے وی نیوز کو بتایا کہ اس بل کے ذریعے عدالتوں کا بوجھ کم کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پنچایت کے تمام ممبرز غیر سیاسی ہوں گے اور اس لوکل پنچایت سسٹم سے بہت سے مسائل ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں: بھیک مانگنا ناقابل ضمانت جرم قرار، پنجاب اسمبلی نے ترمیمی بل کی منظوری دے دی
انہوں نے کہا کہ غریب آدمی جس کے پاس وکیل کرنے کے پیسے نہیں ہیں وہ یہاں دراخوست دے کر مفت میں اپنے کیس کا فیصلہ کروا سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نیا پنچایت سٹم بل، بنگلہ دیش ،انڈیا اور برطانیہ کے تینوں نظاموں کو ملاکر بنایا گیا ہے۔














