مسلم لیگ ن کے ایم پی ایز وزیراعلیٰ مریم نواز کی طرز حکمرانی سے پریشان کیوں ہیں؟

ہفتہ 17 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کابینہ 16 اراکین پر مشتمل ہے اور 5 معاون خصوصی ہیں۔ کابینہ میں 7 وزرا کا تعلق لاہور سے جبکہ باقی 9 وزرا کا تعلق پنجاب کے دوسرے اضلاع سے ہے۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں 205 ایم پی ایز ہیں۔

 لیگی ایم پی ایز نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا پنجاب اسمبلی کے اندر 60 سے 70 کے قریب ایم پی ایز ایسے ہیں جو مریم نواز کی طرز حکمرانی سے کافی پریشان ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے 5 ایم پی ایز بھی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے نالاں نظر آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: مسلم لیگ ن کو ملنے والی گنجائش سے پیپلزپارٹی نالاں، ’ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی‘

لیگی ایم پی ایز نے بتایا کہ کسی کے کوئی کام نہیں ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اراکین کافی ناراض اور غصے میں ہیں۔ پہلے حکومت کی جانب سے کہا کہ ن لیگ کے ایم پی ایز کے جو مسئلے مسائل ہوں گے وہ سینیئر منسٹر مریم اورنگرزیب حل کریں گئی مگر کچھ عرصہ بعد  انہوں نے ایم پی ایز سے ملنے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ یہ کام ان کا نہیں ہے۔

ایم پی ایز کا بتانا ہے کہ اس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ذیشان ملک کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ لیگی ایم پی ایز کے مسائل کو دیکھیں گے مگر جب ذیشان ملک کو مسائل بتائے  گئے تو حل کروانے میں ناکام رہے کیوں کہ ان کے پاس عہدہ تو ہے لیکن اختیارات نہیں ہیں، حلقے کے عوام کو ہم نے جواب دینا ہے مگر حکومت روز  نئے پراجیکٹس اعلان کرتی ہے جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔

ایم پی ایز کو شکایت ہے کہ پنجاب کی 16 رکنی کابینہ ہے وہ اسمبلی اجلاسوں میں آنا پسند نہیں کرتی جس کی وجہ سے ایم پی ایز نے بھی اجلاسوں میں شرکت کم کر دی ہے کیوں کہ جب وزیراعلیٰ مریم نواز خود ہی ایوان کو اہمیت نہیں دیتی تو پھر سینیئر منسٹرز ہو یا منسٹرز وہ کیسے اس ایوان کو اہمیت دیں گے۔ لیگی ایم پی ایز نے بتایا کہ رانا ارشد کو چیف وہیب بنایا گیا ہے کہ وہ اراکین کی ایوان میں تعداد پوری کرے لیکن ایم پی ایز نے انہیں بتایا ہے کہ ہمارے بھی کچھ تحفظات ہیں وہ دور کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان حکومت وفاق سے نالاں کیوں؟

لیگی ایم پی ایز نے بتایا کہ جو تھوڑے بہت لوگ اسمبلی آتے ہیں وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی وجہ سے آرہے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے سب کے لیے دروازے کھولے ہوئے ہیں۔ تھوڑے بہت  کام اسپیکر آفس سے ہو جاتے ہیں مگر جو کام وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے ہونے چائیے وہ نہیں ہو رہے۔

ایک لیگی ایم پی اے نے بتایا کہ جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے انکے ساتھ وزیر قانون رانا ثناء اللہ تھے، شہباز شریف اگرچہ نہیں ملتے تھے لیکن رانا ثناء اللہ ان کی جگہ موجود ہوتے تھے اور طاقتور وزیر تھے، اراکین کے جو مسئلے مسائل ہوتے وہ حل کرتے تھے، شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ بھی عموماً موجود ہوتے تھے جس سے اراکین کو کافی ریلیف مل جاتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی راجہ بشارت وزیر قانون تھے اور وہ اسمبلی بیٹھتے تھے۔ ان کے دروازے بھی عوامی نمائندوں کے لیے  کھلے رہتے تھے لیکن اس بار طرز حکمرانی مختلف ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا پرنسپل سیکریٹری ساجد ظفر ڈال تو عوامی لوگوں کی بات ہی نہیں سنتے، اراکین کی جانب سے متعدد شکایات پرنسپل سیکریٹری کے حوالے سے لگائی گئی ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے: کیا گورنر بلوچستان صوبائی حکومت کارکردگی سے مطمئن نہیں؟

لیگی ایم پی ایز نے بتایا کہ پی ایچ اے کے چیئرمین غزالی سلیم بٹ اپنے دفتر میں نہیں آتے کیوں کہ ان کے پاس صرف عہدہ ہے اختیارات نہیں۔ ان کا ڈی جی ہی ان کے کام نہیں کرتا، غزالی سلیم بٹ کئی بار وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، سینیئر منسٹر مریم اورنگرزیب کو بتا چکے ہیں مگر کچھ نہیں ہوا۔

لیگی ایم پی ایز نے بتایا کہ صوبائی وزیر معدنیات شیر علی گوچانی اپنے سیکریٹری سے کافی پریشان تھے تو انہوں نے سینیئر وزیر مریم اورنگرزیب اور وزیراعلیٰ مریم نواز کو بتایا مگر ان کا مسئلہ حل نہ ہوا جس کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے سیکریٹری معدنیات کو ہٹا دیا، اسپیکر نے پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو مضبوط بنایا ہے۔ اس کے چیئرمین سمیع اللہ خان ہیں، وہاں پر جو ایم پی اے اپنے استحقاق مجروح کے حوالے درخواست کرتا ہے تو استحقاق کمیٹی اس کو بلا کر باز پرس کرتی ہے۔

لیگی ایم پی ایز نے بتایا کہ بزرگ ایم پی ایز نے پنجاب اسمبلی میں اپنا گروپ بنا رکھا ہے جس کی قیادت سابق اسپیکر رانا محمد اقبال کرتے ہیں۔ رانا محمد اقبال بھی اپنے کاموں کے سلسلے میں اسپیکر آفس کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ان کو نہیں سنا جاتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp