سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ کررہا ہے۔
اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آج میرے دلائل دوسرے نکتے پر ہوں گے، اس کیس میں 13 رکنی سے کم بینچ نظر ثانی نہیں سن سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی پہلی سماعت کے حکمنامہ پر سب ججز نے دستخط کیے، واضح ہے کہ حتمی فیصلہ میں جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل کا فیصلہ گنا جائے گا، 13 رکنی بینچ میں سے 2 نے پہلے دن فیصلہ کردیا، اب فیصلہ دینے کے بعد 2 جج صاحبان بینچ میں بیٹھ کر کیا کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے: مخصوص نشستوں کا نظرثانی کیس: 2 ججز الگ ہوگئے، نظرثانی کے لیے ججز کی تعداد یکساں ہونا ضروری ہے، سپریم کورٹ
جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس اندرونی معلومات نہیں، 13 سے 11 بینچ دونوں ججز کی خواہش پر کیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ دونوں ججز نے قانون اور میرٹ پر اپنا فیصلہ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کل پھر ججز کو شامل کریں وہ بھی فیصلہ کردیں تو کیا ہوگا، ایسے تو ہر روز ججز فیصلہ کرتے جائیں اور نکلتے جائیں، آرڈر آف کورٹ میں ہمیشہ بینچ میں شامل تمام ججز کا فیصلہ دیکھا جاتا ہے۔
اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ان 2 ججز نے فیصلہ کیا ہی نہیں، 13 رکنی فیصلے پر 11 ججز نظر ثانی نہیں سن سکتے جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ دونوں جج صاحبان نے پہلے دن ہی اپنے ذہن سے فیصلہ کردیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس مقدمے میں کیا ہوتا رہا سب کچھ against the clock ہوا، چلیں چھوڑیں آپ کو اندرونی باتیں نہیں معلوم آپ دلائل دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جج کھلی عدالت میں کیس سننے سے معذرت کرسکتا ہے، یا چیمبر سے بھی ایسا کہا جاسکتا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ کیس سننے والا جج کھلی عدالت میں آکر ہی معذرت کرتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایسی مثالیں ہیں جہاں ججز نے چیمبرز میں بیٹھ کر بھی کیسز سننے سے معذرت کی۔
یہ بھی پڑھیے: مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس؛ سنی اتحاد کونسل نے مہلت مانگ لی
جسٹس صلاح الدین پہنوار کا کہنا تھا کہ 6 مئی کے حکمنامے کے خلاف کسی نے نظرثانی بھی دائر نہیں کی جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا 2 ججوں کو واپس لانے کیلئے کوئی دعوت نامہ بھیجیں، ان 2 ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ آپ مجھے امریکہ کا ٹکٹ لیکر دیں میں اس جج کو امریکا سے جاکر لے آتی ہوں۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ویسے بھی 10، 10 سال سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلوں بھی زیر التوا کردیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ فوجداری کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جا رہے ہیں، میں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی فوجداری کیسز پر سماعت کی جائے۔
جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے کہا کہ بہت ساری باتوں کا آپکو علم نہیں ہے۔
بعدازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔