رمّو کا گدھا

جمعہ 23 مئی 2025
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

رمّو میرا مالک ! جی ہاں، وہی رمّو جو ملیر ندی کے پاس کچے پکے مکان میں رہتا ہے۔ میں اس کا گدھا ہوں، اس کا ساتھی، اس کی مجبوری، اور شاید اس کا ہمزاد بھی۔ لیکن ہم دونوں کی زندگیوں میں بس انیس، بیس کا ہی فرق ہے کہ وہ 2 پیروں پر چلتا ہے، میں 4 پر۔ مگر دونوں ہی پستے ہیں، دونوں ہی تھکتے ہیں، اور دونوں ہی ایک دوسرے کے رحم و کرم پر ہیں۔

میرا رمّو سے تعلق نسلوں کا ہے۔ رمّو کے دادا جب راجستھان کے سرحدی گاؤں مونا باؤ سے ہجرت کر کے کھوکھرا پار سندھ آئے تھے، تو میرے پر دادا کی پیٹھ پر ہانپتی ہوئی سانسیں اور ضرورت کے چند برتن لدے ہوئے تھے۔ ہمارے داداؤں کا ایک ان دیکھا، ان کہا رشتہ بن گیا تھا۔ ہجرت کے دکھ، دھول۔ اور دھوپ میں ایک دوسرے کا بوجھ ڈھوتے ہوئے، دونوں نسلوں کے لیے بنیاد رکھ گئے تھے۔ میں اسی تسلسل کی ایک کڑی ہوں۔

رمّو اور میں دونوں برسوں سے حالات کی چکی میں پستے پستے مدقوق اور بدصورت دکھائی دینے لگے ہیں۔ اب رمّو کی پیٹھ بھی ویسی ہی جھکی رہتی ہے جیسی میری۔

رمّو کا سانولا رنگ دیکھتے ہی دیکھتے پکے ہوئے تانبے سے مشابہہ ہو گیا ہے ـ اس کے پیر اور میرے کُھر اب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایڑیوں پر پڑی دراڑیں مسلسل گہری ہوتی جارہی ہیں اور اکثر ان میں سے  خون رِسنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی گھسی ہوئی چپل دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھتا ہے جس کا تلّا برائے نام رہ گیا ہے لیکن نئی چپل لینے کی اس میں سکت کہاں ہے۔

پُشتوں سے رمّو کا خاندانی پیشہ گدھا گاڑی پر مال ڈھونا اور ادھر سے ادھر پہچانا تھا۔  جب سے مال بردار گاڑیاں، سوزوکیاں گاہکوں کو با آسانی سستے داموں ملنے لگیں تب سے گدھا گاڑی پر مال ڈھونے کا کام مندی کا شکار ہو چلا ہے۔

رمّو اپنے خاندان کا پیٹ بھرتا تو مجھے بھوکا رہنا پڑتا اور جب چارہ میرے پیٹ کی آگ بجھاتا تو رمّو کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا رہ جاتا۔ اس وقت رمّو کچی شراب پی کر اپنے باپ دادا کو منہ بھر بھر کے گالیاں اور کوسنے دیتا جنھوں نے اس نئے ملک آ کر بھی موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا اور نہ  ہی مال ہتھیانے کے گُر سیکھ سکے۔ اب رمّو  کے پاس مزید غریب اور قلاش ہونے کے کچھ نہ بچا تھا۔ اور میں؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا، بس رِینکتا ہوں۔ شاید میرے رِینکنے میں بھی صدیوں کا دکھ ہوتا ہے، شاید رمّو اسے سن لیتا ہے، شاید وہ سمجھتا ہے کہ میں اس کا حال جانتا ہوں۔

رمّو اپنی بیٹی زینب، ایک معذور بیٹے الیاس اور ان بچوں کی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ رمّو کی بیوی کا نام؟ شاید کبھی اس کا بھی کوئی نام رہا ہوگا لیکن اب وہ

’رمّو کی بیوی‘، ’زینب یا الیاس کی ماں‘ ہی کہلاتی ہے، کبھی وہ اس کے ساتھ ہنستی تھی۔ اب صرف کھانستی ہے۔ دمہ اسے آہستہ آہستہ نگل رہا ہے۔ رمّو جب اپنی فطری خواہش کی بھیک اس کی چادر سے مانگنے لگتا ہے تو وہ کھانستی ہے، ایسی کھانسی کا دورہ کہ دیواریں  ہلنے لگتی ہیں۔ اور پھر رمّو دورے کی طوالت کے ڈر سے چپ ہو جاتا ہے۔ لمبی خامشی اور سرد بستر۔

باہر، گلی کے نکڑ پر ایک خستہ حال کوٹھڑی میں تنہا بیٹھی سکینہ، ایک جوان بیوہ، جس کی آنکھوں میں ابھی تک سہاگ کی روشنی کا دھندلکا باقی ہے، مگر بدن پر بیوگی کا کہر چھایا ہوا ہے۔

کچھ برس پہلے اسے رمّو کے بوڑھے چاچا کے نکاح میں دے دیا گیا تھا  ـ سکینہ اس گھر میں آئی تو چاندنی کی طرح اجلی تھی، مگر چاچا اس چاندنی کو زیادہ دیر نہ سہہ پایا۔ جوانی کا بوجھ لے کر وہ تو رخصت ہوا  لیکن سکینہ جیسی جوان بیوہ کو سسکنے کے لیے پیچھے چھوڑ گیا۔ جس کی خواہشیں کوٹھڑی کی در و دیوار  پر عرصہ تک نوحہ کرتی رہیں۔

سکینہ کی کوٹھڑی میں اب وقت شام ڈھلے داخل ہوتا ہے جہاں وہ اپنی جوانی کی بھیک بانٹتی ہے۔

’ارے وہ سکینہ؟ وہ تو قسمت کی ماری ہے!‘

مگر قسمت تنہا کب مارتی ہے؟

مارنے والے تو ہمیشہ آس پاس ہوتے ہیں، اپنے ہوتے ہیں، زندہ، سانس لیتے ہوئے، دیکھتے، چاہتے، اور چھینتے ہوئے۔

سکینہ کی آنکھوں میں اب خواب نہیں، خالی پن ہے۔ رمّو کئی بار اسے ان آوارہ مردوں سے بچا چکا ہے، جن کی ہوس سکینہ کی فقیری سے بھی زیادہ شدید ہے۔ مگر کب تک؟ رمّو خود بھی تو آخر ایک مرد ہے۔ اور مرد خواہ کتنا بھی مظلوم ہو، جب سکینہ جیسے دکھوں کو دیکھتا ہے، تو اس کی بدن میں بھی ایک نرم سی چنگاری سلگنے لگتی ہے۔ میں نے اسے کئی بار رات کو سکینہ کے کوارٹر کی طرف بڑھتے دیکھا ہے۔ میں کچھ نہیں کہتا۔ شاید میں بھی مرد ہوں، گدھا سہی، مگر درد شناس۔

دن ڈھلتا ہے۔ رمّو مجھے جوتتا ہے، ہم بازار کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی کوئی مزدوری مل جاتی ہے، کبھی خالی ہاتھ واپسی۔ میرے کُھر اور رمّو کے پاؤں، دونوں ایک ہی دُھن پر زمین کو کوستے ہیں۔ کبھی کبھی ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ تھک کر بیٹھتا ہے، میں سائے میں کھڑا ہو کر اپنی سانسیں بحال کرتا ہوں۔ اس کی آنکھوں میں نمی ہوتی ہے، میری آنکھوں میں دھند۔ ہم دونوں خاموش ہوتے ہیں۔ جیسے برسوں سے بول رہے ہوں، اب تھک چکے ہوں۔

کبھی میں سوچتا ہوں، اگر میں انسان ہوتا اور رمّو گدھا، تو کیا فرق پڑتا؟ شاید وہ بھی میری طرح میری پیٹھ پر سوار ہو کر زندگی کا بوجھ ڈھوتا۔ شاید میں بھی اپنی بیوی کی کھانسی کے سائے میں جیتا۔ یا شاید ہم دونوں تب بھی اسی ملیر کے کچے مکان میں ایک ہی روٹی کے 2 ٹکڑوں پر جھگڑ رہے ہوتے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں گدھا ہوں۔

اور رمّو انسان !

یا شاید دونوں ہی کچھ نہیں۔

رمّو ان دنوں ملیر کی ایک بڑی ماربل کی دکان پر کام کرتا ہے۔ ماربل، ٹائل، سیمنٹ کی بوریاں… جو کچھ بھی گاہک لیتے، وہی میری گاڑی پر لدتا، اور رمّو میرے کان کے پیچھے چابک مارتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ مال پہنچاتا۔ مزدوری معمولی، مشقت بےپناہ، اور وقت؟ وہ ہمیشہ رمّو کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلتا جاتا۔

پورا دن چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں کی خاک چھانتے چھانتے جب میری سانسیں پھولنے لگتیں اور حلق میں پیاس کی سوکھی ریت جم جاتی، تو دکانوں کے آگے سجے سایہ دار چھپر اور برفیلے مشروبوں سے لبریز کولر دیکھ کر میرے منہ میں جھاگ سا بھر آتا۔ مگر وہ سائے، وہ پانی، وہ آسودگی صرف 2 پیروں والوں کے لیے تھیں۔ میں نے کبھی کسی دکان دار کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ’ارے اس گدھے کے لیے بھی پانی کا پیالہ رکھ دو‘۔

قدرت نے ان انسانوں کو ہر نعمت سے نوازا، پر کتنے ہیں جو اپنی دکانوں یا گھر کے دروازوں پر ، ایک کٹورا یا  مٹکا ہم بے زبانوں کے لیے رکھتے ہوں۔

کبھی کبھی دل میں آتا ہے کہ اگر میں بول سکتا تو ان انسانوں سے ضرور پوچھتا ’تمھارے حصے کی انسانیت کہاں مر گئی ہے؟‘

ملیر میں لسانی فسادات کیا پھوٹے، روزگار کی تو جیسے رگ ہی کٹ گئی۔ گلیاں سنسان، بازار ویران، اور زندگی خود چھپتی چھپاتی کرفیو کے وقفوں میں سانس لینے لگی۔ دکانوں کے آدھے شٹر کھلے ہوتے، دکاندار دبکے بیٹھے رہتے، گاہک آتے تو بھی خوفزدہ، جاتے تو بھی سہمے ہوئے۔ فضا میں بارود کی مہک یوں رچ بس گئی تھی جیسے روشنیوں کے شہر کی یہی شناخت ہو۔

فائرنگ، بھتے، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشیں… سب کچھ روز کا معمول ہو چلا تھا۔

میں سوچتا، انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا، مگر یہ تو ہم گدھوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ہم تو صرف بوجھ ڈھوتے ہیں، جب کہ یہ تو ایک دوسرے کو  کاٹتے، گولیوں سے بھونتے ہیں… صرف اس لیے کہ کوئی اردو بولتا ہے، کوئی سندھی، کوئی پنجابی، تو کوئی پشتو۔ میرے دادا بتاتے تھے کہ ہندوستان میں بھی ایسے فسادات ہوئے تھے، لیکن وہاں مذہب کے نام پر لوگ کٹ مرے تھے۔ اور اب یہاں زبانوں پر خون بہایا جارہا ہے۔

آج صبح رمّو کی طبیعت خاصی بوجھل تھی۔ رات بھر اس کی بیوی کھانستی رہی تھی، جیسے ہر سانس اس کے حلق سے جان نکالنے آتی ہو۔ لیکن گھر میں 2 دن سے چولہا ٹھنڈا پڑا تھا، آٹا دال کا نام و نشان نہ تھا، سو رمّو کو کام پر نکلنا ہی پڑا۔

اس نے مجھے گاڑی میں جوتا، چابک ہوا میں لہرایا اور ہم نکل پڑے۔

سڑکوں پر غیر معمولی سناٹا تھا۔ اکا دکا دکانیں اور ادھ کھلے شٹر کے پیچھے بیٹھے دکانداروں کی آنکھیں بار بار باہر جھانک رہی تھیں، جیسے خوف ان کی سانسوں میں بسا ہو۔

ہم جیسے ہی ملیر سعودآباد کی طرف مڑے، فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونج اٹھی۔ زمین جیسے کانپ گئی ہو۔

میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔

میں سر پٹ دوڑنے لگا۔ مجھے تو پٹاخوں سے بھی ڈر لگتا ہے، یہ تو اصل گولیاں تھیں۔ رمّو مجھے چابک سے روکتا رہا، مگر مجھے ہوش کہاں تھا۔ میرے کھر تیزی سے زمین پر پڑتے جاتے، ہر ضرب میں خوف کی لرزش چھپی تھی۔ رمّو نے مجھے ایک تنگ گلی میں موڑا تاکہ ہم کہیں چھپ سکیں ـ  لیکن یہاں تو کراس فائرنگ زوروں پر تھی۔

میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا بھاگتا رہا۔ رمّو چلاتا، چابک برساتا رہا۔ لیکن پھر اچانک، وہ چابک رک گئی۔

میرے کان سناٹے میں ڈوب گئے۔ میں پھر بھی دوڑتا رہا، کیونکہ ایک ان جانا خوف میرے جسم میں کسی بجلی کی مانند دوڑ رہا تھا۔

فائرنگ کچھ لمحوں کے لیے تھمی تو میں نے بھی سانس بحال کرنے کو اپنی رفتار آہستہ کی۔

’ارے ارے! وہ دیکھو! گدھاگاڑی میں کوئی زخمی ہے!‘

ایک آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔

’شاید گولی لگی ہے… پورا تختہ خون سے سرخ ہو رہا ہے!‘

میرے کھر جیسے زمین سے چپک گئے۔ میں دم سادھے کھڑا رہا۔ میرے نتھنے پھڑپھڑا رہے تھے، سانسیں بے ترتیب، مگر دل جیسے ساکت ہو گیا تھا۔  میں نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا۔

رمّو کے پیر بےجان لٹک رہے تھے اور میری پشت پر رمّو بےحرکت پڑا تھا۔ وہ رمّو، جو کبھی اپنے دادا کو کوستا تھا، زندگی کو گالیاں دیتا تھا، سکینہ کی کوٹھڑی میں جھانکتا تھا، اور میری پیٹھ پر اپنے بچوں کے لیے دال روٹی کا سامان لاتا تھا۔

میں وہیں دم بخود کھڑا تھا۔

رمّو  کے جسم کا خون اس کی ایڑیوں سے ہوتا ہوا زمین پر ٹپک رہا تھا… بالکل ویسے جیسے برسوں سے دراڑوں میں جمے دکھ درد ، بالآخر بہہ نکلے ہوں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp