وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کا کہنا ہے کہ مصدق ملک کا کہنا تھا کہ بھارت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پانی کا کیا تصور رکھتا ہے، آیا پانی اورجن ہے کیا، دریا ہے، بیسن ہے یا پھر پانی تہذیب اور ثقافت ہے۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر تو پانی اورجن ہے اور معاہدے کے باوجود نیا طریقہ کار یہ ہے کہ ڈھلوان میں اونچی سطح رکھنے والے ملک کا حق ہے کہ وہ پانی روک لے تو یاد رکھیں پاکستان اکیلا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی مسترد کرتے ہیں، یوم تشکر پر صدر مملکت کا پیغام
’پاکستان اکیلا نہیں ہے، بھارت کا ایک تہائی پانی چین سے آتاہے، اور ان دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ بھی نہیں، تو کیا بھارت چین کو یہ حق دے رہا ہے کہ وہ ان کا سارا پانی روک لیں۔‘
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدے میں معطلی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، یعنی جو چیز ہو ہی نہیں سکتی اس کا ذکر کیا، اس کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: بھارتی ہٹ دھرمی برقرار، جے شنکر کا سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر اصرار
مصدق ملک کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاہدے کے تحت اختلاف کی صورت میں 4 طریقہ کار وضع کیے گئے ہیں، جو پچھلے 50 سالوں میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہوچکے ہیں، جس کے مطابق بعض فیصلے ان کے اور بعض ہمارے حق میں رہے۔
’اس کا مطلب ہے کہ یہ میکنزم کام کرتا ہے، ہمیں بھی ریلیف ملتا ہے جب ہماری قانونی پوزیشن مضبوط ہو اور اسی طرح انہیں بھی، ایک معاہدہ جو فعال ہے اور جس میں معطلی کی گنجائش نہیں وہ ختم نہیں ہوسکتی، جو ٹیکنیکل بات ہے۔‘