بینڈ، باجا اور بارات ۔ ۔ ۔ شادی زندگی کا یادگار لمحہ، عموماً زندگی میں ایک مرتبہ ہی آتا ہے، اس دن دلہن کی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ خوبصورت نظر آنے کی خواہش ہوتی ہے تو دولہا بھی سب سے منفرد دکھائی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ شادی میں کئی رسومات ہوتی ہیں، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، بڑھ چڑھ کر ان میں حصہ لیتی ہیں، یہ قدیم رسمیں برسوں سے چلی آ رہی ہیں، کئی رسمیں وقت کے ساتھ بدلتی بھی رہتی ہیں۔ آج ہم ایک ایسی رسم کا ذکر کر رہے ہیں، برسوں سے شادی کی اہم تقریب اس کے بغیر بھی نامکمل سمجھتی جاتی ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں شہ بالا کی، اس کے نام بھی مختلف ہیں، اردو زبان میں شہ بالا یا شاہ بالا ،پنجابی زبان میں سر بالا، یا سڑ بالا اور انگلش میں Paranymph.
یوں تو دولہا اور دلہن ہی سب کی نظروں کا محور ہوتے ہیں مگر دولہا کے ساتھ ساتھ خراماں خراماں چلتی ایک اور شخصیت بھی خود کو وی آئی پی تصور کرتی ہے اور یہ کوئی اور نہیں ہمارے بلاگ کا موضوع یعنی شہ بالا ہے ۔ ماضی کی باتیں تو بعد میں کرتے ہیں، موجودہ دور میں شاہ بالا کے لیے بچوں کا انتخاب ہی کیا جاتا ہے ۔ ایک معصوم اور پیارا بچہ دولہا کے ساتھ ساتھ سائے کی طرح ہوتا ہے، اس کی سج دھج ہی الگ ہوتی ہے۔ حلیہ اور روپ بھی دولہے جیسا ہوتا ہے۔ وہی لباس، وہی شاہانہ انداز، دلہن کے بعد اس دن دولہا کا لاڈلا صرف وہ ہی ہوتا ہے۔
اس رسم کا آغاز کیسے ہوا، اس سے متعلق مختلف کہانیاں نسل در نسل چلی آ رہی ہیں، اس کے تانے بانے قدیم یونانی تہذیب سے ملتے ہیں، شہ بالا کے لیے انگلش لفظ paranymph بھی دو یونانی الفاظ ۔ numfios اور para سے ہی مل کر بنا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ماضی میں جب کوئی بارات جاتی تو یہ اکثر ڈاکو اور لٹیروں کا نشانہ بن جاتی، لوٹ مار کے دوران دولہا کو بھی کبھی کبھار مار دیا جاتا تھا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ دولہا کے ہم عمر ایک شخص کو اس جیسے کپڑے پہنا کر اس کے پیچھے رکھا جاتا اور انتخاب کے لیے نظر اکثر دولہا کے کزنز میں سے کسی پر ٹھہرتی۔ دولہا کے قتل کی صورت میں دلہن کی شادی اسی سے کردی جاتی۔
قدیم تہذیب میں شادی کے انتظامات کی ذمہ داری شہ بالا کی ہی ہوتی تھی۔ برصغیر پاک و ہند میں یہ رسم کیسے آئی، اب اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں انگریزوں نے یہ رسم یونانیوں سے لی، ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں قدم جمائے، برطانیہ نے یہاں حکومت کی تو انگریزوں کی دیکھا دیکھی مقامی باشندوں کو بھی یہ رسم پسند آئی اور پھر شادی کی دیگر کئی رسومات میں شہ بالا کی رسم بھی شامل ہو گئی مگر انہوں نے اس میں کچھ تبدیلی کی اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید تبدیلیاں بھی آتی گئیں۔
گئے وقتوں میں ہمارے یہاں جیسے ہی دولہا کے سر سہرا سجتا تو وہ خود کو کئی پابندیوں میں گھرا محسوس کرتا، اس مشکل وقت میں اس کے دوست اس کے کام آتے۔ دولہا کچھ مانگنے میں ججھک محسوس کرتا اور چلنے میں مشکل پیش آتی تو یہ ساری ذمہ داریاں اس کا قریبی دوست یا عزیز بطور شہ بالا نبھاتا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ دولہے کے شہ بالا کے لیے اس کے مقابلے میں کم خوبصورت فرد کا انتخاب ہونے لگا۔ دولہا کے ہم عمر فرد کو شہ بالا بنانے سے کئی مسائل پیدا ہونے لگے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شہ بالا کے لیے نظر کرم بچوں پر ٹھہرنے لگی۔
شہ بالا کے لیے بچوں کا انتخاب کیسے ہوا، اس سے متعلق دو رائے پائی جاتی ہیں، ایک رائے تو یہ ہے کہ کم خوبصورت افراد کا انتخاب ہونے کے بعد کئی افراد شہ بالا بننے سے انکار کرنے لگے۔ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ دولہا اور شہ بالا میں مماثلت کے باعث کچھ ناخوشگوار واقعات بھی ہونے لگے۔ دونوں کا چہرہ پھولوں سے ڈھکا ہوتا، لباس بھی ایک جیسا ہوتا تھا، کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ غلطی سے شہ بالا کو ہی دولہا سمجھ لیا گیا۔ ان تمام مسائل کا حل یہ نکالا گیا کہ شہ بالا کے لیے چھوٹے اور پیارے بچوں کا انتخاب کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔
موجودہ دور میں بچے ہی شہ بالا بنتے ہیں تو ان پر کوئی ذمہ داری تو نہیں ڈالی جا سکتی، اس طرح اب اس کا کردار صرف علامتی ہوتا ہے، شہ بالا بننے والے بچے کی بھی خوب عیاشی ہوتی ہے، خوبصورت لباس ملتا ہے تو شادی میں شریک افراد کی نظریں دولہا کے ساتھ ساتھ اس پر بھی ہوتی ہیں۔ شہ بالا کو کہیں اور نہیں، دولہا کے ساتھ اسٹیج پر جگہ ملتی ہے۔
شہ بالا تو عموماً بچے ہی بنتے ہیں مگر جون 2019 میں ایک خاص شادی میں ترک صدر رجب طیب اردوان ترکش نژاد جرمن فٹ بالر مسعود اوزیل کے ’شہ بالا‘ اور شادی کے گواہ بنے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان بھی سات سال کی عمر میں اپنے کزن کی شادی میں شہ بالا بنے تھے۔
اردو زبان میں ایک دلچسپ ضرب المثل بھی پڑھنے کو ملتی ہے’دولہا دلہن پائے، شہ بالا لاتیں کھائے‘ یعنی اصل آدمی کی قدر ہوتی ہے دوسرے کی بے عزتی ہوتی ہے یا پھر فائدہ کسی اور کو اور مشقت بیچارے شہ بالا کو۔
کوئی کچھ بھی کہے یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کل شادی کی تقریبات شہ بالا کے بغیر نامکمل سمجھتی جاتی ہیں، دولہا کے ساتھ ساتھ اسے بھی اہمیت دی جاتی ہے، شہ بالا کے لیے منتخب ہونے والا بچہ خود کو اسپیشل محسوس کرتا ہے تو اس کے والدین کو بھی اس پر فخر ہوتا ہے۔
کیا آپ بچپن میں شہ بالا بنے، ضرور بتایئے گا؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔