’ماں‘ ۔۔۔ کیسا میٹھا، محترم اور مقدس لفظ ہے جو محبت کا استعارہ اور خلوص کی تجسیم ہے۔ ہم پاکستانی ماں کے تقدس اور اِس رشتے کی عظمت کے ایسے ماننے والے ہیں کہ ہماری زندگی کے کتنے ہی مظاہر اس وابستگی کی وارفتگی کا عکس ہیں۔
رکشوں، بسوں، ٹرکوں کے پیچھے ’ماں کی دعا، جنت کی ہوا‘،’یہ سب میری ماں کی دعا ہے‘ اور ’ماں تجھے سلام‘ کی روشن عبارتیں اور’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘ جیسے آنکھوں کو دھندلا دینے والے گیت اور پھر ہماری شاعری، جس میں ماں کا روپ اپنی ساری لطافتوں اور عنایتوں کے ساتھ اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ اقبال اپنی والدہ کی وفات پر یوں گریہ کناں ہوتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آجاتا ہے:
خاکِ مرقد پر تیری لے کر یہ فریاد آﺅں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آﺅں گا
اور
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
نیز
ایک مُدت سے مِری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
جیسے ماں کی محبت میں گندھے شعر دھرتی ماں اور مادرِ وطن کے تصورات، ماﺅں کا دن تو چھوڑیے سوشل میڈیا پر ہر دوسرے دن ممتا کی قربانی و ایثار کا اعتراف کرتی اور ماں کے پیار سے سرشار پوسٹیں بات بات پر ماں کی قسمیں ماں کو کچھ کہہ دینے پر جان لینے پر کمر بستہ ہو جانا، یہ سب دیکھ کر دنیا کی کسی بھی قوم کا فرد ہماری حُب مادر اور ماں پرستی پر اَش اَش کرتا ہوگا۔
لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ بڑا خوفناک ہے۔ ہمارے ’ماں پرست‘ سماج میں بہت سی ماﺅں پر جو گزری اور جو گزر رہی ہے وہ درد اور اذیت میں لپٹی ایک کہانی ہے۔
شروع کرتے ہیں اس خاتون کے تذکرے سے جسے پوری قوم کی ماں کہا گیا، یعنی مادرِ ملت۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی بہن ہونے کے ناتے فاطمہ جناح کو قوم نے مادرِ ملت کا خطاب دیا، اگر وہ سیاست میں نہ آتیں اور آمر ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب نہ لڑتیں تو ان کے برسرِاقتدار بیٹوں کے سر بھی ان کے سامنے تعظیم میں جھکے رہتے، لیکن انتخابی میدان میں اترتے ہی یہ مادر ملت ’غدار‘ قرار پائیں، اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا، انہیں عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے ان کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالا گیا۔ ایوب خان نے انہیں ’نسوانیت اور ممتا سے عاری‘ خاتون قرار دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے بھٹو نے ان دنوں یہ سوال اٹھایا کہ ’اس‘ نے شادی کیوں نہیں کی؟ اتنا ہی نہیں ہوا، انتخابی مہم کے دوران ایک کُتیا کے سر پر دوپٹہ ڈال اور گلے میں لالٹین (لالٹین محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھی) ڈال کر اسے سڑکوں پر گھمایا گیا۔
اب آئیے ایک اور ماں کی طرف، نصرت بھٹو ایک المیے کا نام ہے۔ اپنے محبوب اور دل آویز شخصیت کے مالک شوہر کے پھانسی پر جھولنے کا صدمہ سہنے کے بعد نصرت ذرا سنبھلیں تو آمریت کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہو کر شاید اپنے درد کو طاقت بنانے کی ٹھان چکی تھیں۔ لیکن آخر کتنا درد جھیلا جاسکتا ہے، کتنی تکلیف سہی جاسکتی ہے۔ شوہر کی پھندے پر جھولتی لاش ہی فراموش نہ ہوئی تھی کہ خوبرو بیٹے شاہ نواز بھٹو کا جوان جسم بے جان ہو کر ان کی آغوش میں آگرا، اس صدمے کو 10 سال گزرے، ایک ماں کے لیے یہ برس بیتے دن سے زیادہ نہیں تھے، جب بیٹے کی موت پر کلیجہ پھٹ گیا تھا، وہ خود کو بڑی حد تک سنبھال چکی تھیں کہ دوسرے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کے جسم میں درجنوں گولیاں اتار دی گئیں، جس کی خون میں لت پت لاش ان کے سامنے لا بچھائی گئی، اچھا ہوا کہ اس سانحے کے بعد انہوں نے ہوش کھودیے ورنہ، بیٹی بے نظیر بھٹو کو تربت میں اترتے دیکھنا بھی ان کی قسمت بنتی۔
ایک اور ماں کی کہانی سُنیے۔ اداکارہ شبنم، ارض بنگال سے تعلق رکھنے والی اس اداکارہ نے مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد بچ رہنے والے پاکستان ہی کو اپنا وطن بنایا اور پاکستانی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاتی رہی۔ جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد ایک روز شبنم کے گھر میں پانچ مسلح افراد داخل ہوئے۔ اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ان امیرزادوں نے لوٹ مار کرنے کے ساتھ وہ کیا جس پر شیطان بھی شرما جائے۔ ایک ماں اپنے شوہر اور کم سن بیٹے کے سامنے بے آبرو کر دی گئی۔ اس گھناﺅنے فعل میں ملوث فاروق بندیال اور دیگر پانچ درندوں کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سُنائی، لیکن بااثر اور طاقت اور مجرموں نے دباﺅ ڈال کر شبنم کو مجبور کیا کہ وہ انہیں معاف کر دیں اور اسلامی عدل و انصاف کی داعی ضیاء حکومت نے بھی ان زور آوروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
ہمارے دیس میں ماﺅں سے سلوک اور ممتا کے استیصال کا ایک قصہ وہ ہے جو معروف صحافی اردشیر کاﺅس جی نے ’ماں کی ہائے‘ کے زیرِ عنوان اپنے کالم میں لکھا۔ یہ تذکرہ ہے 1996ء کا، جب ملک پر اور صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ایم کیو ایم آپریشن اور سختیاں جھیل رہی تھی۔ کراچی میں خون خرابہ اور لاشیں گرنا روز کا معمول تھا۔ ایک دن خبر آئی کہ ایم کیو ایم کی بزرگ رکن سندھ اسمبلی فیروزہ بیگم پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی ہیں اور انہوں نے وزارتِ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ فیروزہ بیگم ایک گھریلو خاتون تھیں جنہیں ان کے بیٹے ایم کیو ایم کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی اسامہ قادری کی والدہ ہونے کے باعث اسمبلی کا رکن منتخب کرایا گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد اردشیر کاﺅس جی نے ڈان میں لکھے جانے والے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ فیروزہ بیگم کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے سرکاری جماعت کا حصہ بن کر وزارت قبول نہ کی تو ان کے بیٹے اسامہ قادری کو پولیس مقابلے میں مارا جاسکتا ہے۔ اس دور میں ایم کیو ایم کے کسی کارکن کی پولیس مقابلے میں ہلاکت روز کی خبر تھی۔ اس بوڑھی ماں کو دھمکایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کی جان حکومت میں شامل ہوکر ہی بچاسکتی ہیں۔ اور ایک ماں اولاد کی خاطر مجبور ہوگئی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب پاکستان امریکا کی ’دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا حصہ بنا تو ہمارے شہر ایف بی آئی اور سی آئی اے کے لیے گھر کا دالان بن گئے۔ اس دور میں کتنے ہی پاکستانی امریکا کے حوالے کیے گئے۔ ایک دن پراسرار طور پر کراچی سے 3 بچوں سمیت لاپتا ہوجانے والی عافیہ صدیقی بھی ایسی ہی پاکستانی تھی، جس کی چیخیں پہلے افغانستان کے ایک قید خانے میں سُنی گئیں، پھر ان کی گرفتاری غزنی سے ظاہر کی گئی اور کچھ دنوں بعد وہ امریکی عدالت کے کٹہرے میں نظر آئی، جہاں اسے 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان کے بچے واپس آگئے اور اب تک اپنی ماں کے منتظر ہیں، لیکن یہ کتھا اس ماں کی ہے جو یہ سنتی رہی کہ اس کی بیٹی امریکا کی جیل میں ظلم و تشدد کا شکار اور جنسی زیادتی کی اذیت جھیل رہی ہے، اس کی نم آنکھوں میں بیٹی کا چہرہ گھومتا رہا، سماعت میں بیٹی کی چیخیں گونجتی رہیں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کے دلاسے ملتے رہے کہ اس کی بیٹی جلد اس کے پاس آجائے گی، مگر وہ دن نہ آیا اور عافیہ کی راہ تکتے تکتے دکھیاری ماں ’عصمت بی بی‘ آنکھوں میں انتظار لیے دنیا سے چلی گئیں۔
ہمارے ملک میں ماﺅں سے جو ہوا یہ اس کی صرف چند تصویریں ہیں، ورنہ کراچی سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی وادیوں تک کتنی ہی مائیں اپنے لاپتا بیٹوں کے لیے تڑپ رہی ہیں، کتنی ہی ماﺅں کے سامنے ان کے بیٹوں کو خون میں نہلا دیا گیا اور بیٹیوں کو بے آبرو کردیا گیا۔ بیسیوں مائیں ہیں جو سیاست میں آکر رسوائی اور الزامات کے داغ سہتی ہیں اور ان داغوں کے ساتھ اپنی اولاد کے سامنے جاتی ہیں۔ اس سب کے باوجود ہم ماﺅں کی عظمت کے علم بردار ہیں۔