روحانی تربیت یا عملی زندگی سے فرار؟

جمعہ 6 جون 2025
author image

عباس سیال، سڈنی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی، تعلیم، معیشت اور عالمی سطح پر بدلتے ہوئے رجحانات نے انسان کی زندگی کو نئے سوالات اور چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔

ان حالات میں نوجوان نسل کسی بھی معاشرے کی ترقی، فکری رہنمائی اور استحکام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر جب یہی نسل مذہبی جوش یا فکری وابستگی کے نام پر عملی زندگی سے کٹنے لگے، تو معاشرہ سوال کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں تبلیغی جماعت ایک پرامن، غیر سیاسی اور دعوتی مذہبی تحریک کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد انسان کو اس کے خالق سے جوڑنا، عبادات کی طرف راغب کرنا، اور اسلامی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کرنا ہے۔ لیکن اس فکر کا ایک رخ ایسا بھی ہے جو کئی نوجوانوں کو تعلیم، معاشی خودمختاری اور سماجی کردار سے دور لے جا رہا ہے۔

تبلیغی جماعت کی دعوت میں آخرت کو اصل منزل اور دنیا کو عارضی قیام گاہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس نظریے کی روح قرآنی ہے، لیکن جب اس کی تعبیر اس انتہا کو چھو لے کہ دنیاوی تعلیم، ہنر، اور سماجی خدمات کو غیر ضروری یا ’فانی جھنجھٹ‘ سمجھا جانے لگے، تو یہی تعبیر نوجوانوں کو بے عملی، انحصاری مزاج اور فکری جمود کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

یونیورسٹیوں میں تعلیم چھوڑ کر جماعتوں میں مستقل وقت لگانے والے نوجوان، وہ ہنر یا علم حاصل نہیں کر پاتے جو انہیں نہ صرف خود کفیل بناتا، بلکہ معاشرے کے لیے بھی مفید بناتا۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ ایک ایسی نسل کی صورت میں نکل سکتا ہے جو بلند مقاصد کے بجائے محدود دائرۂ کار میں قید ہو کر رہ جائے۔

تبلیغی جماعت کی صفوں میں سوالات کی گنجائش محدود نظر آتی ہے۔ نوجوان جب صرف تلقین، ہدایت یا طے شدہ نصیحتوں کے ذریعے دینی شعور حاصل کرتے ہیں، تو ان کی تنقیدی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ فکری تربیت کا یہ پہلو انتہائی اہم ہے، کیوں کہ موجودہ دنیا صرف عقیدے نہیں، دلیل، تحقیق اور مکالمے کی بنیاد پر چلتی ہے۔

اس رجحان سے صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ قومی، تعلیمی اور معاشی سطح پر بھی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا ہمارے نوجوان صرف وعظ و نصیحت کے ذریعے ایک مکمل شخصیت بنا سکتے ہیں؟ یا انہیں دینی شعور کے ساتھ دنیاوی بصیرت بھی درکار ہے؟

اسلام دینِ فطرت ہے۔ یہ روحانی ارتقا کے ساتھ ساتھ دنیاوی توازن کا بھی درس دیتا ہے۔ قرآن ہمیں واضح طور پر یاد دہانی کرواتا ہے:

اور جو کچھ اللہ نے تجھے عطا کیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنا، اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول۔‘(القصص: 77)

یہ آیت دعوت دیتی ہے کہ انسان اپنے ایمان کے ساتھ دنیاوی ذمہ داریوں کو بھی اپنائے۔ دین کو دنیا سے الگ کرکے دیکھنے کا رجحان صرف فکری افراط و تفریط کو جنم دیتا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ تبلیغی جماعت جیسی بااثر تحریکیں دین کی دعوت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو عملی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر بھی غور کریں۔

صرف نماز، ظاہری وضع قطع یا مخصوص جماعتی معمولات نوجوانوں کو نہ تو مکمل مسلمان بناتے ہیں، نہ ہی مکمل انسان۔ ہمیں ایسے داعی، ایسے مسلمان اور ایسے نوجوان درکار ہیں جو مسجد کے ساتھ ساتھ میدانِ عمل میں بھی رہنمائی کر سکیں۔

تبلیغ، اگر فکری پختگی، تخلیقی سوچ، معاشی خودمختاری، اور انسانیت کی خدمت کے ساتھ ہو، تو یقیناً ایک نئی روشن نسل کو جنم دے سکتی ہے۔ ورنہ ہم صرف مطیع، غیر فعال اور محدود سوچ کے حامل افراد پیدا کرتے رہیں گے، جو نہ دین کے لیے سودمند ہیں، نہ دنیا کے لیے۔

نوٹ: یہ تحریر کسی فرد یا جماعت کی نفی یا تحقیر کے لیے نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ مکالمے کی دعوت ہے تاکہ نوجوان نسل کو توازن، بصیرت اور فعالیت کی طرف مائل کیا جا سکے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp