ایران نے 2018 میں ہونے والے ایک مسلح تصادم کے سلسلے میں شدت پسند تنظیم داعش سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو پھانسی دے دی ہے۔
عدلیہ سے وابستہ سرکاری خبر ایجنسی میزان کے مطابق ان افراد کو ایران کی نیم فوجی فورسز، پاسدارانِ انقلاب(IRGC)، کے ساتھ جھڑپ کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس میں 3 ایرانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان افراد کو ریاست کے خلاف مسلح کارروائی اور دہشتگرد تنظیم کی رکنیت کے الزامات میں قصوروار ٹھہرایا گیا، اور اسلامی جمہوریہ ایران میں رائج سزائے موت کے طریقہ کار کے تحت انہیں پھانسی دی گئی۔
اگرچہ ان افراد کی شناخت یا واقعے کی درست جگہ ظاہر نہیں کی گئی، مگر یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا تھا جب ایران کی سیکیورٹی فورسز علاقے میں داعش کی بڑھتی سرگرمیوں کے تناظر میں چوکس تھیں۔ داعش کو عراق و شام میں اپنے سابقہ ٹھکانوں سے نکالے جانے کے باوجود، مشرق وسطیٰ میں وہ اب بھی وقفے وقفے سے مہلک حملے کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: ترکیہ کو مطلوب ترین داعش دہشتگرد ابو یاسر التُرکی پاکستانی تعاون سے گرفتار
داعش کی افغانستان میں سرگرمیوں، خصوصاً طالبان کے 2021 کے بعد کنٹرول سنبھالنے کے بعد، دوبارہ ابھرنے کے آثار دیکھے گئے ہیں۔ داعش خراسان (ISKP) نے افغانستان میں کئی نمایاں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایران میں بھی داعش کی جانب سے متعدد حملے کیے گئے، جن میں جون 2017 میں پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر حملہ شامل ہے، جس میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
حالیہ واقعہ جنوری 2024 میں پیش آیا، جب داعش نے جنرل قاسم سلیمانی کی یاد میں ہونے والی تقریب میں خودکش دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ جنوب مشرقی شہر کرمان میں ہونے والے ان دھماکوں میں کم از کم 94 افراد جان سے گئے، جو ایران کی حالیہ تاریخ کے سب سے ہلاکت خیز حملوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ایرانی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسے حملوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، اور منگل کو ہونے والی پھانسیاں بظاہر اسی عزم کا اظہار ہیں کہ ایران اپنی سرزمین یا سرحدوں کے قریب سرگرم انتہا پسند گروہوں سے سختی سے نمٹے گا۔