پاکستان کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی موجودہ مدتِ صدارت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت دیگر دیرینہ تنازعات کو حل کرانے میں معاون کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کے بیان کی کتنی اہمیت ہے؟
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے 10 جون کو واشنگٹن میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ محکمہ خارجہ کی سینئر اہلکار انڈر سیکریٹری برائے سیاسی اُمور، ایلیسن ہوکر نے حالیہ دنوں پاکستانی پارلیمانی وفد سے ملاقات کی۔
اس وفد کی قیادت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کر رہے تھے، جنہوں نے بھارتی جارحیت، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اور مودی حکومت کے اشتعال انگیز بیانات پر پاکستان کا موقف واضح انداز میں پیش کیا۔
ترجمان بروس نے بتایا کہ ملاقات میں پاک-امریکا تعلقات، انسداد دہشتگردی تعاون، اور پاکستان و بھارت کے درمیان فائر بندی کے جاری معاہدے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا فائر بندی کے تسلسل کو خوش آئند سمجھتا ہے اور اس کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
بلاول بھٹو کی قیادت میں 9 رکنی وفد 31 مئی سے 6 جون کے دوران نیویارک اور واشنگٹن میں موجود رہا، جہاں انہوں نے امریکی کانگریس کے درجن سے زائد ارکان سے ملاقاتیں کیں، جس کے بعد وہ لندن اور برسلز روانہ ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:ہم جلد پاکستان کے ساتھ ایک بڑا تجارتی معاہدہ کرنے جارہے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران ایک بھارتی پارلیمانی وفد بھی واشنگٹن میں موجود تھا، جس سے امریکی نائب وزیر خارجہ لینڈاؤ نے ملاقات کی اور بھارت کے ساتھ انسداد دہشتگردی اور تزویراتی شراکت داری کو سراہا۔
ان تمام تر پس منظر کے ساتھ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا:
’میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا تاکہ شاید ایک ہزار سال پرانے مسئلے (کشمیر) کا کوئی حل نکالا جا سکے‘۔
پاکستان نے اس بیان کو خوش آئند قرار دیا ہے، تاہم بھارت نے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر کو دوطرفہ معاملہ قرار دیا ہے۔
محکمہ خارجہ سے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کو کسی مشترکہ اجلاس کے لیے مدعو کرنے یا اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے کوئی اقدام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ٹیمی بروس نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا، لیکن کہا کہ صدر ٹرمپ عالمی سطح پر نسل در نسل جاری تنازعات کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:جنگ بندی میں ٹرمپ کا کوئی کردار ہے، نہ ہی پاکستان نے ایٹمی حملے کی دھمکی دی، بھارتی خارجہ سیکریٹری
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بات کسی کے لیے حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ صدر ٹرمپ ایسے معاملے کو حل کرنا چاہیں گے۔ انہوں نے وہ بات چیت ممکن بنائی ہے جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا‘۔
انگریزی اخبار نے اپنی رپورٹ میں اشارہ دیا ہے کہ ستمبر میں نیویارک میں ہونے والا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان صدر ٹرمپ کی قیادت میں ممکنہ ملاقات کا اہم موقع فراہم کر سکتا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ایک تاریخی پیشرفت ہو گی بلکہ جنوبی ایشیا میں امن کے لیے بھی ایک امید افزا قدم ہو گا۔