دنیا بھر میں اپنی معصوم شکل، پر جیسے گلپھڑوں اور ویڈیو گیمز جیسے مائنکرافٹ میں مشہور ہونے والے ننھے جل تھلیے ایکسولوٹل اب صرف تفریح کا ذریعہ نہیں رہے، سائنس دانوں کے لیے یہ ننھا سا جانور ایک سائنسی معجزہ بن چکا ہے، جو انسانوں کے کٹے ہوئے ہاتھ، پیر یا دیگر اعضا کی دوبارہ تخلیق کی امید جگا رہا ہے۔
بوسٹن کی نورتهیسٹرن یونیورسٹی میں حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر جیمز موناہن اور ان کی ٹیم نے ایک نئی تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر ایکسولوٹل کس طرح نہ صرف اپنے ہاتھ پاؤں، بلکہ دل، پھیپھڑوں اور یہاں تک کہ دماغ کے حصوں کو بھی دوبارہ بنا لیتا ہے۔
ڈاکٹر جیمز موناہن کا کہنا ہے کہ یہ مخلوق واقعی غیر معمولی ہے، یہ جانور وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو عام طور پر سائنس فکشن میں دیکھا جاتا ہے۔
The axolotl has the amazing ability to regrow entire limbs repeatedly—without scarring—& is even able to regrow injuries as grievous as a crushed spinal cord! Scientists are researching its regenerative abilities in hopes of one day applying it to human medicine. [📸: Uraspasibo] pic.twitter.com/JOHx7lsnbW
— American Museum of Natural History (@AMNH) August 31, 2019
تحقیق میں استعمال کیے گئے ایکسولوٹل کو جینیاتی طور پر اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ جب ان کے جسم میں ریٹینوک ایسڈ نامی مالیکیول سرگرم ہوتا، تو وہ چمکنے لگتے۔ یہ مالیکیول، جو وٹامن اے سے تعلق رکھتا ہے اور جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات میں بھی استعمال ہوتا ہے، خلیات کو بتاتا ہے کہ وہ جسم کے کس حصے میں موجود ہیں اور وہاں کیا چیز دوبارہ بنانی ہے۔
تحقیق کے دوران، ایکسولوٹل کی اعضا کی تخلیق کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے ان کے اعضا کو خاص طریقے سے مکمل بے ہوشی کے بعد الگ کرکے پھر دیکھا گیا کہ یہ جانور کس طرح سے اپنے جسم کے حصوں کو دوبارہ اگاتے ہیں۔
’جب ان کو ایک ایسی دوا دی گئی جو ریٹینوک ایسڈ کے ٹوٹنے کے عمل کو روکتی ہے، تو ان کے نئے اگنے والے اعضا میں گڑبڑ دیکھی گئی، مثلاً جہاں صرف نیچے والا بازو بننا چاہیے تھا، وہاں اوپر والا بازو بننے لگا۔‘
یہ بھی پڑھیں: چین میں انسانی اعضا کے عطیے اور پیوند کاری سے متعلق قوانین کے نفاذ کی باضابطہ توثیق
ڈاکٹر جیمز موناہن کے مطابق اس سے یہ ظاہر ہوا کہ ریٹینوک ایسڈ نہ صرف اعضا کی تخلیق میں مدد دیتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جسم کا کون سا حصہ کہاں ہے، اور وہاں کیا بننا چاہیے۔
’ایکسولوٹل نہ صرف بغیر کسی تکلیف کے اعضا کھو دیتا ہے بلکہ چند ہفتوں میں اُسے مکمل طور پر دوبارہ بنا بھی لیتا ہے، یہ عمل انسانوں میں ممکن نہیں، لیکن ہماری تحقیق ایک دن ممکنہ طور پر اس خواب کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔‘
چمکنے والے ایکسولوٹل بنانے والی ٹیم کے رکن اور ایم ڈی آئی بائیولوجیکل لیبارٹری کے محقق پرایاگ مراوالا، کے مطابق یہ ہم انسانوں سے بہت مختلف نہیں ہیں۔ ’ہمارے پاس بھی وہی جینز ہیں جن سے بچپن میں ہمارے اعضا بنے تھے۔ چیلنج یہ ہے کہ ہم بڑے ہوکر ان جینز کو دوبارہ کیسے فعال کریں، جو کام ایکسولوٹل بخوبی کرتا ہے۔‘
مزید پڑھیں: غیر انسانی سلوک کی شکار اونٹنی کو مصنوعی ٹانگ کب لگے گی؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں ایکسولوٹل کی مقبولیت نے سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، اب یہ جانور صرف تجربہ گاہوں میں ہی نہیں، بلکہ کھلونوں، ملبوسات، اور ویڈیو گیمز میں بھی عام نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر جیمز موناہن مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تھوڑا سا خواب جیسا لگتا ہے۔ ’میں ہوائی اڈے پر ایکسولوٹل دیکھتا ہوں، شاپنگ مال میں، یہاں تک کہ میرے بچے اسکول سے ایکسولوٹل کے کھلونے لے کر آتے ہیں کیونکہ اب لوگ جان چکے ہیں کہ میں کیا کرتا ہوں۔‘