یہ چند سال پہلے جون کے یہی جھلسا دینے والے کٹھن دن تھے، جب خبر آئی کہ باکسر محمد علی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ محمدعلی خاصے عرصے سے علیل تھے، حتیٰ کہ ہم نے اخبار میں ان کے لیے ایک تعزیتی رنگین ایڈیشن بھی بنا لیا تھا۔
صحافت سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک معمول کی بات ہے۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات وغیرہ کے لوگ ممتاز شخصیات کے لیے ایسی کچھ نہ کچھ تیاری رکھتے ہیں۔ خاص کر جب کوئی سیلبریٹی علیل ہو اور کنڈیشن سیریس ہوجائے۔ ریڈیو والے اپنے انداز میں پروگرام تیار کر لیتے ہیں، ٹی وی والے بھی اپنا پیکیج بروقت تیار کر لیتے ہیں اور اخبارات والے رنگین اسپیشل ایڈیشن مکمل تیار کر کے رکھتے ہیں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ اگر آدھی رات کو خبر آئے اور تب تیاری کرنے کا وقت نہ ہو، تب بھی ہم اپنے قارئین، ناظرین کے لیے فوری مواد پیش کر سکیں۔ اخبار کا تو یہ مسئلہ ہے کہ کاپی رات ڈیڑھ، 2 بجےچھپنے چلی جاتی ہے، تب ہی صبح 5، 6 بجے اخبار چھاپ کر لوگوں کے گھر تک پہنچانا ممکن ہوتا ہے۔
برسبیل تذکرہ ان ایڈوانس ایڈیشنز اور ٹی وی پیکیجز کے بھی بعض اوقات لطیفے بن جاتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کوئی بڑا آدمی شدید بیمار پڑا اور ہم نے ان کا پیج بنا لیا، مگر اللہ پاک نے انہیں صحت دے دی اور پھر کئی برسوں کے بعد وہ دنیا سے رخصت ہوئے، مگر تب تک وہ پرانا پیج بھی ادھر اُدھر ہوجاتا ہے۔ پھر نیا بنانا پڑتا ہے۔
ایسا میرے صحافتی کیرئر میں 2،3 بار ہوا۔ ایک بار باکسر محمد علی کے معاملے میں، ان کے لیے بنایا گیا پیج ضائع ہوگیا، اس کے کئی سال بعد ان کا انتقال ہوا۔ اسی طرح دوسرا دلیپ کمار کے حوالے سے بھی ہوا۔ ان کے لیے بھی 2 بار پیجز بنوانے پڑے۔
ویسے یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی نامور سیاسی یا قومی شخصیت ایسی شدید بیمار پڑی کہ موت کے لالے پڑ گئے، مگر اللہ نےانہیں شفا دے دی۔اب انہیں تو نہیں پتہ کہ ہم صحافیوں نے ان کے لیے تعزیتی ایڈیشن بھی بنا لیا تھا۔ جنوبی پنجاب کی ایک ممتاز سیاسی شخصیت کےساتھ ایسا ہی ہوا، انہیں شدید برین ہیمرج ہوا، بھاگم بھاگ خصوصی کلر ایڈیشن بنوایا گیا۔ رب کریم نے مہربانی کی، وہ شفایاب ہوئے، آج بھی ماشااللہ متحرک ہیں۔ اللہ ان کی زندگی، صحت میں برکت عطا فرمائے۔ ان سے اس کے بعد کئی ملاقاتیں ہوئیں، ہم نے کبھی اشارتاً بھی نہیں بتایا کہ سرکار! آپ کے لیے ہم نے ایمرجنسی میں کئی گھنٹے لگا کر پیج بنا لیا تھا۔
جنگ اخبار میں تو ایک اور دلچسپ معاملہ ہوا کہ مادام نور جہاں کی علالت کے دنوں میں ان کے لیے نہ صرف اسپیشل پیج بلکہ اخبار کا پورا فرنٹ پیج ہی ڈیزائن کرا لیا گیا۔ میڈم کی یادگار تصاویر، ان کے حوالے سے دلچسپ خبریں،آرا وغیرہ۔ نیوز ایڈیٹرز وغیرہ نے بڑی محنت کے ساتھ دلکش، پُر اثر سرخیاں نکالیں جو ملکہ ترنم کی شخصیت کے شایان شان ہوں۔ وہ پیج بنوا کر محفوظ کر لیا گیا۔ بعد میں کہیں ایسا ہوا کہ ان کی موت کی افواہ پر کسی اسٹیشن میں وہ پیج چھاپ دیا گیا۔ شاید جنگ لندن میں ایسا ہوا۔ شکر ہے پاکستان کے کسی اسٹیشن میں ایسا نہیں ہوا، البتہ مادام تک یہ خبر پہنچ ہی گئی۔ انہوں نے اپنے مخصوص بے لاگ انداز میں صلواتیں سنائیں اور مینجمنٹ کے خوب لتے لیے۔ یہ اور بات کہ جب مادام نورجہاں کا انتقال ہوا تو وہی پیج نکال کر چھاپا گیا۔ اخبار کا پورا فرنٹ پیج ان کے حوالے سے تھا۔
ہم اخبار والوں کا دل شاید کچھ زیادہ سخت ہوجاتا ہے یا پروفیشنل تقاضے اس قدر غالب آ جاتے ہیں کہ ایسے مواقع کو بھی روٹین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ نیوز روم اور میگزین والے آپس میں یہ کہا کرتے ہیں کہ خدانخواستہ کسی سیلیبرٹی کا انتقال ہو تو ٹائمنگ بہتر ہونی چاہیے تاکہ بروقت سب کچھ ہوجائے۔
یہ ٹائمنگ بھی عجیب چیز ہے۔ ہمارے عہد کے ایک بہت بڑے عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندوی کا انتقال ہوا۔ یہ بڑا سانحہ تھا۔ مولانا بہت بڑے آدمی تھے، ان کا ہر مکتب فکر ، ہر مسلک میں احترام تھا۔ اس روز انہیں پاکستانی اخبارات میں بھی بھرپور کوریج ملنی چاہیے تھی۔ ایک عجیب واقعہ مگر ایسا ہوا جو سب کوریج اور جگہ لے گیا۔
اسی دن 100 بچوں کا قاتل جاوید اقبال گرفتار ہوا۔ اس نے جنگ اخبار کے دفتر میں جا کر گرفتاری دی تھی، عجیب وغریب انکشافات کیے۔ اس واقعے نے پورا ملک ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اگر نیوز چینلز کا زمانہ ہوتا تو مسلسل لائیو نشریات چلتیں اور نجانےکیا کیا ہنگامہ آرائی ہوتی۔ لوگوں کو تو اگلے دن ہی پتہ چلا۔ اگلے روز جنگ اخبار کا فرنٹ پیج مکمل طور پر جاوید اقبال کی خبروں، تصاویر، انکشافات سے لبریز تھا۔ پورے صفحے پر صرف ایک سنگل خبر کی جگہ نکالی گئی۔ بالکل نیچے، انتہائی بائیں طرف 6،7 سطروں کی ایک سنگل خبر شائع ہوئی جس میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کے انتقال کا بتایا گیا۔ ورنہ وہ کم از کم بھی 3،4 کالمی خبر تھی، کیا عجب کہ سپرلیڈ ہوتی۔
خیر! باکسر محمد علی کے انتقال پر ہم نے اپنا پہلے سے تیار شدہ رنگین ایڈیشن بھی شائع کیا اور اگلے روز تازہ کالم بھی لکھا۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں، مگر محمد علی میرے لیے باکسنگ کے آخری چیمپئن تھے۔ واحد شخص جنہیں باکسنگ نہ دیکھنے والا بھی چیمپئن کہہ کر پکارتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ علی ہی ایک ایسے شخص تھے، جس پر یہ نام اچھا لگتا تھا۔
علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد باکسنگ میں کئی معروف باکسر آئے، بعض نے مختلف حوالوں سے شہرت بھی کمائی۔ مائیک ٹائی سن نے اپنی وحشیانہ قوت کی وجہ سے بہت سوں کو حیران کیا مگر قوت کے ساتھ جو خوبصورتی، تکنیک ،پھرتی اور ان سب سے بڑھ کر جو سحر محمد علی کی شخصیت میں تھا، وہ ٹائسن سمیت دوسروں میں مفقود تھا۔
محمد علی میری نسل اور مجھ سے پہلی والی نسل کی خوشگوار، مہکتی یادوں کا حصہ تھے۔ ان کے بعض بہت مشہور اور یادگار مقابلے جیسے فائیٹ آف دی سنچری(جوفریزئیر سے مقابلہ)، تھرلاان منیلا(جو فریزئیر سے تیسری اور سب سے خوفناک فائیٹ)، دی رمبل ان دی جنگل(جارج فورمین سے یاد گار فائیٹ)وغیرہ 70 کے عشرے کے وسط تک ہوچکی تھیں۔ پاکستان میں اسپورٹس چینلز شروع ہوئے تو علی کی کئی فائٹس بار بار دکھائی جاتی رہیں۔60 اور 70 کے عشرے والی نسلوں کے لیے تو علی طے شدہ، غیر متنازع ہیرو تھا۔ بطور مسلمان علی کی مقابلوں میں جیت کو دنیا بھر کے مسلمان اپنی کامیابی سمجھتے۔ محمد علی کا اسلام قبول کرنا اور پھر ایک بنیاد پرست مسلمان کے طور پر زندگی گزارنا، اپنے آپ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ جوڑے رکھنا، مغرب میں اسلامی مخالف پروپیگنڈہ کے خلاف ایک ٹھوس چٹان بن کر کھڑا ہوجانا ایسا کام تھا، جو ہمارے جیسے بے شمار لوگوں کو آج بھی مسحور کر دیتا ہے۔
محمد علی مگر صرف مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا نہیں تھا، اس نے وہ کر دکھایا تھا جو اس کے عہد کے بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا میں سیاہ فاموں کے لیے زندگی نہایت مشکل تھی اور بدترین نسلی تعصب کے مظاہر ہر جگہ نظر آتے۔ محمد علی جو اس وقت کاسیئس کلے تھا، انہی سخت اور کٹھن حالات سے ابھرا اور چھوٹی عمر میں امریکہ کے لیے اولمپکس گولڈ میڈل حاصل کیا۔
یہ کامیابی کم اہم نہیں تھی۔ اس نوجوان باکسر میں بہت آگے جانے اور خود کو منوانے کے جراثیم تھے۔ اس نے کالوں کے لیے الگ ہوٹلوں کی پابندی ماننے سے انکار کیا۔ مشہور ہے کہ اپنے ایک ایسے ہی تلخ تجربے کے بعد اس نے گولڈ میڈل دریا میں پھینک دیا۔ اس نے اپنے شدید غصے اور ڈپریشن کو باہر نکالنے کے لیے پروفیشنل باکسنگ کی راہ اختیار کی اور محض 21 سال کی عمر میںسونی لسٹن جیسے ممتاز باکسر سے ورلڈ چیمپئن شپ فائٹ جیت کر ہر ایک کو حیران کر دیا۔ سونی سے فائٹ جیتنے اور چیمپئن بننے کے بعد اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنا نام کاسئیس کلے سے بدل کر محمد علی کر لیا۔ اپنی بقیہ تمام زندگی علی کا اصرار رہا کہ کوئی اسے کلے کہہ کر نہ پکارے، اب وہ محمد علی ہے۔
علی اپنی ہر فائیٹ کی منفرد انداز سے تشہیر کرتا۔ وہ اپنے مخالف پر تند وتیز حملے کرتا، اسے بے وقعت ثابت کرتا اور پیش گوئی کرتا کہ میں اسے فلاں راؤنڈ میں ناک آئوٹ کر دوں گا۔ یہ پیش گوئی علی نظم کی شکل میں کرتا۔ چھوٹی چھوٹی سادہ سی نظمیں جو اس کی بے باکی، جرات اور مخالف پر حملوں کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوگئیں۔
محمد علی نے ان چیلنجزکے ذریعے اپنی سیاہ فام آبادی کو اٹھایا، ان میں جذبہ جگایا اور یہ احساس ڈالا کہ وہ گوروں سے کم تر نہیں، انہیں شکست دے سکتے ہیں۔ علی کا یہ بڑا کریڈٹ ہے کہ اس نے چیمپیئن بننے، دولت وشہرت کے مہربان ہوجانے کے بعد اشرافیہ کا حصہ بننے کے بجائے ایک عام سیاہ فام سے خود کو جوڑے رکھا۔
علی کا اسٹائل عام باکسروں سے مختلف اور دلکش تھا۔ عام باکسر ہمیشہ اپنا ایک ہاتھ چہرے کو بچانے کے لیے اوپر رکھتے ہیں۔ علی کمال جرات سے دونوں ہاتھ نیچے کر لیتا اور مخالف کو حملہ کرنے پر اکساتا۔ اپنی پھرتی سے وہ بچتا اور پھر موقع ملتے ہی ضربیں لگا کر مقابل کو ناک آؤٹ کر دیتا۔ وہ بیشتر مقابلے جیتا، مگر 3 ، 4 اہم فائٹس ہارا بھی۔ ایک بار جبڑا بھی ٹوٹ گیا۔ ہر بار علی گرنے کےبعد کھڑا ہوا، واپس آیا اور دوبارہ چیمپئین بنا۔
مذہب محمد علی کی زندگی کا بہت اہم حصہ رہا۔ علی پارکنسن کی بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود سماجی کاموں میں حصہ لیتا رہا، مختلف ممالک میں اسلام کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک بار اپنی اس بیماری کے حوالے سے علی نے کہا ’ہم تمام زندگی خود کو عظیم کہتے ہیں، مگر عظمت صرف رب تعالیٰ کو حاصل ہے، اس کے سوا کسی کو یہ دعویٰ زیب ہے نہ ہی اس کا ایسا مقام ہوسکتا ہے، میری بیماری نے مجھے سمجھا دیا کہ عظمت اور دوام صرف اللہ ہی کو حاصل ہے‘۔
محمد علی کی زندگی کا ایک پہلو بہت شاندار اور غیرمعمولی تھا۔ درحقیقت اسی نے علی کو عظیم ترین بنایا۔ انہوں نے امریکی جنگجوانہ جنون اور دوسرے ممالک پر فوج کشی کےخلاف مزاحمت کی۔ یہ مزاحمتی رویہ اس وقت بہت نمایاں ہوگیا، جب امریکا نے بلاجواز ویت نام پر حملہ کر دیا۔ ویت نام کے ساتھ جنگ کے لیے امریکا بھر میں لازمی فوجی بھرتی کا قانون آ گیا اور بے شمار نوجوان فوج میں بھرتی ہو کر ویت نام لڑنے چلے گئے۔ محمد علی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کا کہنا تھا کہ میں ویت نامیوں پر ظلم کیوں کروں؟یہ ناانصافی ہے، میں ایسا نہیں کر سکتا۔محمد علی کی زبانی انکار سن کر امریکا کی طاقتور لابیز مشتعل ہوگئیں۔ علی سے چیمپئین کا ٹائٹل چھین لیا گیا، باکسنگ لائسنس منسوخ ہوگیا اورقید کی سزا سنا دی گئی۔ علی کو بتایا گیا کہ فوجی بھرتی کے لیے ہا ں کر دے، اسے ویت نام نہیں بھیجا جائے گا اور امریکا کے اندر ہی کسی شعبے میں چند ماہ کی سروس کر کے وہ یہ شرط پوری کر دے۔ محمد علی نے انکار کر دیا اور سب کچھ کھونا قبول کر لیا۔ یہ علی کی زندگی کا ایک اور شاندار پہلو تھا۔ ایک ورلڈ چیمپئین جو شہرت، دولت، عزت سب کچھ حاصل کر چکا تھا۔ صرف ایک فیصلے نے اس سے سب چھین لیا اور اسے سلاخوں کےپیچھے دھکیل دیا گیا۔
محمد علی نے اس کی پروا تک نہیں کی۔ آخرکار وہ سرخرو ہوا، رہا ہوا، دوبارہ باکسنگ کی، پھر سے چیمپیئن بنا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا آج کے امریکا، مغربی دنیا اور خود مسلم دنیا میں ایسے مزاحمتی رویہ اور ایسی شاندار عزیمت رکھنے والے اتنے کم کیوں ہوچکے؟ ابھی مغرب سے چند تابناک مثالیں سامنے آئیں۔ گریٹا تھنبرگ اور ان کی ساتھیوں کی فریڈم فلوٹیلا اور پھر مغربی دنیا ہی سے لوگ قافلے بنا کر غزہ کے محصورین تک جانا اور پابندیاں توڑنے کا عزم کیے رہنا۔
مسلم دنیا البتہ خاموش ہے۔ محمد علی جیسے جذبے، عزم اور ہمت کی یہاں ضرورت ہے۔ علی واقعی چیمپئین تھا جس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ ادھر اسلامی دنیا کی سیلبریٹیز، کھلاڑی، فنکار، ادیب ،معروف لوگ سب گنگ بیٹھے ہیں۔ یہی خدشہ کہ کہیں ہمیں نقصان نہ پہنچ جائے، ہم سے کچھ چھن نہ جائے۔ آج مجھے محمد علی پھر سے یاد آ رہا ہے۔ وہ واقعی حقیقی چیمپیئن تھا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے ، وہ ہر میدان میں سربلند، سرخرو رہا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔