جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں زیر کرکے کرکٹ مقابلوں کے فیصلہ کن مراحل میں اپنی شکست کی دیرینہ روایت ختم کردی ہے۔ ’چوکرز‘ ہونے کا گہرا داغ دھو دیا ہے۔ اس بے نظیر کامیابی سے جنوبی افریقہ کی ٹیم نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔
جنوبی افریقہ نے یہ فتح دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کے خلاف حاصل کی ہے جس کی کرکٹ میں فتوحات کی لمبی تاریخ ہے۔ اس کی موجودہ ٹیم جنوبی افریقہ سے مضبوط ہے جس کا اندازہ اس کے تگڑے بولنگ اٹیک سے کیا جاسکتا ہے۔ جنوبی افریقہ کو لارڈز میں پیٹ کمنز، مچل اسٹارک، ہیزل وڈ اور نیتھن لیون سے واسطہ پڑا، یہ چاروں ٹیسٹ کرکٹ میں 1500 سے زیادہ وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
اس پائے کی بولنگ کے خلاف اتنے بڑے میچ میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز کا ہدف حاصل کرنا غیر معمولی کارنامہ ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں چوتھی اننگز بیٹر کے لیے نہایت پُرآزمائش ہوتی ہے، اس لیے بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑی اس امتحان میں ناکام رہتے ہیں لیکن ایڈن مارکرم سرخرو رہے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی خوبصورتی ہے کہ اس میں آپ زندگی کی طرح گر کر سنبھل سکتے ہیں۔ پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونے والے مارکرم نے دوسری اننگز کے دوران کڑے وقت میں شاندار کھیل پیش کرکے دل جیت لیے۔ لارڈز میں وہ چوتھی اننگز میں سینچری بنانے والے اپنے ملک کے پہلے بیٹر ہیں۔ انہیں مین آف دی میچ ٹھہرایا گیا، بڑے بڑے کرکٹر اور مبصر ان کی شان میں رطب اللسان ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ صرف کھلاڑی کو ناکامی کی تلافی کا موقع نہیں دیتی بلکہ کئی مرتبہ پوری ٹیم پلٹ کر جھپٹتی ہے، سامنے کی مثال اسی ٹیسٹ میچ کی ہے، جنوبی افریقہ نے پہلی اننگز میں دفاعی طرزِ فکر کو اپنایا جس کی وجہ سے حریف ٹیم اس پر حاوی ہوئی اور اسے 138 رنز پر ڈھیر کردیا۔ دوسری اننگز میں جنوبی افریقہ نے زاویہ نگاہ تبدیل کیا اور پہلی اننگز کے مقابلے میں کہیں زیادہ نازک صورت حال میں مارکرم اور باووما نے بڑی عمدگی سے بلے بازی کرکے ٹیم کو فتح کی راہ پر ڈال دیا۔
پارٹنرشپ کی مسلمہ اہمیت اس ٹیسٹ میں نئے معنوں میں اجاگر ہوئی ہے، ٹیمبا باووما اننگز کے شروع میں ایک تیز رنز لیتے ہوئے ہیمسٹرنگ انجری کا شکار ہوئے جس کے بعد ان کے لیے وکٹوں کے درمیان دوڑنا باعثِ آزار ہوگیا۔ کھیل روک کر انہوں نے ٹریٹمنٹ لیا لیکن کچھ خاص افاقہ نہیں ہوا جس کے بعد چائے کے وقفے میں ان کے ریٹائرڈ ہرٹ ہو جانے کی تجویز سامنے آئی۔ مارکرم نے اس سے اتفاق نہیں کیا کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ کسی رکاوٹ کے بغیر پارٹنر شپ چلتی رہے۔ کپتان کی حیثیت سے باووما نے اس بات سے اتفاق کیا اور وقفے کے بعد وہ زخمی حالت میں مارکرم کے ساتھ میدان میں اترے اور دونوں نے آسٹریلیا کے بولروں کو بے بس کردیا۔ اس کارکردگی کی بدولت جس جنوبی افریقہ کے جیتنے کی موہوم سی امید تھی اس کی فتح کی آہٹ شائقین کرکٹ کو سنائی دینے لگی۔ بازی پلٹنے کی تصدیق آسٹریلوی کھلاڑیوں کے اترے ہوئے چہروں سے بھی ہو رہی تھی۔ تیسرے دن کا کھیل ختم ہونے پر مارکرم 102 اور باووما 65 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ تھے۔ ٹیم فتح سے 69 رنز کی دوری پر تھی، دونوں بلے باز ٹیم کا سفینہ گرداب سے نکال لائے تھے، امید تو یہی تھی کہ جنوبی افریقہ بقیہ رنز آسانی سے بنا لے گا لیکن جیتے ہوئے میچ ہارنے کے ماضی کی وجہ سے وسوسے گھیرے ہوئے تھے کہیں اس بار بھی لب بام سے دو چار ہاتھ کی دوری پر کمند ٹوٹ نہ جائے۔ دوسری طرف یہ خیال کہ آسٹریلین ٹیم ذہنی مضبوطی کی وجہ کمزور پوزیشن سے اٹھ کر مخالف کو پسپا کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔ بہر حال چوتھے دن باووما کی وکٹ جلد گرنے کے بعد مارکرم نے ٹیم کو سنبھالا دیا اور 136 رنز کی میچ وننگ اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو فتح یقینی ہو چکی تھی۔ ان کے آؤٹ ہونے پر عجب منظر تھا۔ حریف ان کے آؤٹ ہونے کی خوشی منانے کے بجائے اس یادگار اننگز پر انہیں مبارک باد دے رہے تھے۔ اسپورٹس مین اسپرٹ اسی کو کہتے ہیں اور اس کا مظاہرہ بھی ایسے وقت ہوا جب آسٹریلیا کی شکست نوشتہ دیوار تھی۔
آسٹریلیا کے خلاف مارکرم کی یہ تیسری سینچری تھی، دلچسپ بات ہے باووما کی کپتانی میں جنوبی افریقہ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 2023 میں پہلا میچ جیتا تھا تو اس میں بھی مین آف دی میچ کا اعزاز سینچری میکر مارکرم کے حصے میں آیا تھا۔ وہ 11 برس پہلے سے اپنے ملک کے لیے خوشی بختی کی علامت ہیں کیوں کہ جنوبی افریقہ نے انہی کی کپتانی میں 2014 میں انڈر 19 ورلڈ کپ جیتا تھا۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کپتانی کئی نامور کرکٹرز کے حصے میں آئی جنہوں نے اپنی ٹیم کو بڑی کامیابیاں بھی دلائیں لیکن ان میں سے کوئی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتنے کے برابر نہیں۔ اس کے لیے قدرت نے ایسے کپتان کو چنا جو اسٹار نہیں، جس کی شخصیت کرشماتی نہیں، وجاہت اور قد بت نہیں بلکہ کامیابی کے طویل سفر میں عزم صمیم ہی اس کی متاع تھا۔ کیپ ٹاؤن میں سیاہ فام افراد کے لیے مخصوص بستی لانگا سے تعلق رکھنے والے ٹیمبا باووما ٹیسٹ کرکٹ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والے پہلے سیاہ فام بیٹر تھے۔ چمکتے دمکتے کرکٹ ستاروں کے درمیان رہ کر دھیرے دھیرے انہوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
سچ تو یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ میں باووما کی کپتانی بڑی راس آئی جن کی کپتانی میں کھیلے گئے 10 ٹیسٹ میچوں میں سے 9 میں اس نے کامیابی حاصل کی اور ایک میچ بے نتیجہ رہا۔ دوسری طرف کپتان بننے کے بعد باووما بیٹر کے طور پر ایک نئے روپ میں سامنے آئے، وہ دس ٹیسٹ میچوں میں تین سینچریاں اور پانچ نصف سینچریاں بنا چکے ہیں۔
لارڈز میں انعامات کی تقسیم کے وقت ان کا نام پکارا گیا تو تماشائیوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تو مجھے باووما کے ایک انٹرویو کا خیال آیا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ لارڈز سے ان کی ذہنی وابستگی کا رشتہ دس سال کی عمر میں قائم ہوگیا تھا۔ اسی زمانے میں انہوں نے لارڈز میں کھیلنے کا خواب دیکھا تھا جو 2017 میں پورا تو ہوا لیکن ان کی ٹیم کی ہار نے مزہ کرکرا کر دیا تھا۔
یہ بات البتہ یقینی ہے کہ باووما نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ وہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فاتح کپتان کی حیثیت سے لارڈز میں پورے قد سے کھڑے ہو کر مسکرا رہے ہوں گے۔
لارڈز سے باووما کے تعلق خاطر کی تاریخ یہ ہے کہ لانگا میں ان کی چوطرفہ گلی کے ہر حصے کا نام کرکٹ کے کسی معروف مرکز کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ان میں سے سب سے نتھرے ستھرے اور آراستہ حصے کا نام لارڈز تھا اور گلی کےمختلف حصوں میں باووما کو یہی گوشہ سب سے زیادہ پسند تھا۔ میرے خیال میں آج کے بعد دنیا بھر کے میدانوں میں لارڈز ہی ان کا پسندیدہ ترین کرکٹ مرکز ہوگا، لانگا کے لارڈز سے لندن کے لارڈز تک کا یہ سفر باووما کی کامیابی کی وہ عظیم داستان ہے جو لانگا ہی نہیں کسی بھی پچھڑے ہوئے طبقے کی بستی کے نوجوانوں کے دلوں میں امید اور کامیابی کی جوت جگا سکتی ہے۔
جنوبی افریقہ کی اس عظیم کامیابی کے دن مجھے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کی یاد آرہی ہے جو کرکٹ کے بڑے شوقین تھے اور کرکٹروں سے ربط ضبط رکھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام فاسٹ بولر مکھایا نتینی نے جب سو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا سنگ میل عبور کیا تو اس موقعے پر اپنے پیغام میں نیلسن منڈیلا نے انہیں لکھا تھا:
’جو کچھ تم نے حاصل کیا ہے وہ ان میچوں کی تعداد سے ماورا ہے جو تم نے کھیلے ہیں۔ تم نے خاص طور سے ہمارے ملک کے نوجوانوں کو دکھایا ہے کہ وہ سب اپنے حالات سے اوپر اٹھ سکتے ہیں اور جو کام وہ کررہے ہوں اس میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں اگر اس کے لیے وہ یکسو اور پرجوش ہوں، ہمیں تم پر فخر ہے۔‘
نیلسن منڈیلا زندہ ہوتے تو غالباً وہ اس سے ملتا جلتا پیغام ہی باووما کے نام جاری کرتے جس سے جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام کپتان کا دل خوشی سے بھر جاتا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔