پاکستان کرکٹ ٹیم (وائٹ بال) کے سابق پاکستانی ہیڈ کوچ گیری کرسٹن نے اپنی مختصر مدت کی کوچنگ کے دوران درپیش مسائل پر خاموشی توڑ دی ہے، اور اپنی قبل از وقت رخصتی کی بڑی وجوہات میں اختیارات کی کمی اور بیرونی مداخلت کو قرار دیا ہے۔
معروف کرکٹ پوڈکاسٹ ’وزڈن کرکٹ‘ پر گفتگو کرتے ہوئے جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کوچ نے اپنے تجربے کو ’پُرآشوب‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی سمجھ گئے تھے کہ اُن کا اس ٹیم پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیے پی سی بی سے اختلافات، قومی وائٹ بال ٹیم کے کوچ گیری کرسٹن مستعفی
’یہ چند مہینے بہت ہنگامہ خیز تھے۔ میں نے بہت جلد محسوس کیا کہ میرے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ جب مجھے سلیکشن سے الگ کر دیا گیا اور ایسی ٹیم دی گئی جسے میں خود نہیں چُن سکتا تھا، تو بطور کوچ کام کرنا مشکل ہو گیا۔‘
کوچنگ کے لیے واپسی کا امکان مگر شرائط کے ساتھ
اگرچہ کرسٹن نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی دوبارہ کوچنگ کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب حالات بالکل مختلف ہوں۔
’اگر مجھے کل کلاں پاکستان واپس بلایا جائے، تو میں ضرور آؤں گا لیکن میں صرف کھلاڑیوں کی خاطر آؤں گا اور وہ بھی موزوں میں۔‘
یہ بھی پڑھیے گیری کرسٹن مستعفیٰ، ’عاقب جاوید حالات خراب کر رہے ہیں‘، کرکٹ پرستار پھٹ پڑے
انہوں نے زور دیا کہ کرکٹ معاملات صرف تجربہ کار کرکٹ افراد کے ہاتھوں میں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے اس ’بیرونی دباؤ‘ کی مذمت کی جو ٹیم کے ماحول کو متاثر کرتا ہے۔
’جب ٹیمیں کرکٹ اصل لوگوں کے بجائے دوسروں کے ہاتھوں میں چلتی ہیں، اور جب باہر سے شور بہت زیادہ ہو اور وہ شور بہت بااثر ہو تو ٹیم کی قیادت کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی سمت طے کرے۔‘
پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریف
گیری کرسٹن نے پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ’زبردست‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ کم وقت گزارنے کے باوجود ان کے لیے محبت رکھتے ہیں۔
’مجھے پاکستانی کھلاڑی بہت پسند آئے۔ وہ بہت دباؤ میں ہوتے ہیں، اور جب ہارتے ہیں تو اُن پر تنقید کا طوفان آ جاتا ہے۔‘
کامیابی ممکن ہے، مگر…
آخر میں کرسٹن نے کہا کہ کامیابی ممکن ہے، اگر ٹیم کو درست ماحول فراہم کیا جائے۔
’جب مداخلت نہ ہو، اور ٹیم باصلاحیت ہو، تو کامیابی خودبخود مل جاتی ہے۔’