یہ 2013 کے اوائل کی بات ہے جب چین کے صدر شی جن پنگ نے ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کا اعلان کیا۔ بنیادی طور پر یہ اہم یورپی و ایشیائی ممالک کے درمیان وسیع تر معاشی ترقی کا منصوبہ تھا جس کی بنیاد انفراسٹرکچر، تجارت اور سرمایہ کاری پر رکھی گئی۔ یہ کوئی معمولی منصوبہ نہیں تھا بلکہ اس منصوبے کے معاشی فوائد 60 سے زیادہ ممالک اور 4ارب سے زیادہ انسانوں تک پہنچنے تھے۔
اس منصوبے کے تحت دو طرح کے عالمی رابطے قائم کیے جانے تھے؛ پہلا سلک روڈ کے ذریعے اقتصادی رابطہ یعنی سلک روٹ اکنامک روڈ اور دوسرا سمندری ذرائع سے رابط یعنی میری ٹائم سلک روٹ۔ اپنی اصل میں یہ معاشی ترقی کا وسیع منصوبہ ہے اور اس کی تکمیل سے امریکہ اور مغربی ممالک کی معاشی اجارہ داری ختم ہونے کا امکان بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں چین نے عالمی منڈی میں تجارت چینی کرنسی میں کرنے کی شروعات بھی کر دی ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ اگر چین کی معاشی ترقی کا سفر اسی طرح جاری رہا تو ایک دن ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے کے امکانات بھی روشن ہیں۔
مئی 2013 میں چینی وزیر اعظم نے اپنے پاکستان دورے کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف کو اس منصوبے میں شمولیت کی دعوت دی اور وزیراعظم نوازشریف نے جولائی 2013 میں اپنے دورے کے دوران پاک چائنا اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک منصوبے کی دستاویز پر دستخط کر کے اپنی رضامندی دے دی۔ اربوں ڈالر کی اس سرمایہ کاری کے تحت پاکستان میں کاشغر سے گوادر تک سڑک، ریلوے ٹریک، انرجی پراجیکٹس اور کئی صنعتی زونز کی پلاننگ شامل تھی۔ سی پیک روٹ کا زیادہ تر حصہ بلوچستان، کے پی کے اور گلگت بلتستان سے گزر رہا ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے ذیلی سڑکیں سی پیک روٹ کا حصہ بن رہی ہیں۔ یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی خودانحصاری کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور صرف ٹیکس محصولات کی وصولی سے ہی پاکستانی معیشت کو اچھا خاصا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی منصوبہ، پراجیکٹ یا سرمایہ کاری لگانے کی بات ہو تو مفروضات کی بنیاد پر اس کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز اس منصوبے، پراجیکٹ یا سرمایہ کاری کی شروعات سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے شروع ہو جاتا ہے۔
یہی حال سی پیک کے ساتھ بھی ہوا۔ کسی نے اسے قرض کہا اور کسی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام دیا۔ کسی کو خیال آیا کہ سی پیک کی آڑ میں پاکستانی تہذیب و ثقافت اور اقدار کو گزند پہنچائی جائے گی اور کسی کو لگا کہ اربوں روپے کی یہ انویسٹمنٹ نقد رقم کی صورت میں ہے اور کے پی کے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے تو صوبے کا حصہ نہ دینے کی صورت میں اعلان کر دیا تھا کہ سی پیک کو کے پی کے سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ دوسری طرف چین کی اس خطے میں موجودگی سے امریکہ اور مغربی ممالک کو لگتا ہے کہ ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا اس لیے بیرونی طاقتیں بھی سی پیک کے خلاف متحرک ہو گئیں۔ گوادر پورٹ کی ترقی اور اہم ترین بندرگاہ ہونے کی حیثیت سے فعال کردار بھارت کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا اور اس کی بھی کوشش رہی کہ یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو اور اس میں رکاوٹیں ڈالی جائیں۔ 2018 کے بعد آنے والی حکومت نے سی پیک منصوبوں کی تکمیل میں ہر طرح کے تاخیری حربے استعمال کیے اور ایک ایسے شخص کو سی پیک اتھارٹی کا چیئر مین بنایا جس کے اپنے ذاتی کاروباری مفادات امریکہ سے وابستہ تھے۔ رزاق داؤد نے سی پیک منصوبوں کو تین سال کے لئے بند کرنے کی بات کی اور مراد سعید نے ان منصوبوں میں کرپشن تلاش کرنے کی کوشش میں چین کو ناراض کیا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں سی پیک کے تحت بننے والے پراجیکٹ تاخیر کا شکار رہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ اور چین کے درمیان ہنڈولے کی طرح جھولتی رہی۔ چین اور امریکہ دونوں ہی پاکستان سے ناراض رہے۔ چین کو غصہ معاہدوں کی خلاف ورزی اور لاگت بڑھنے پر تھا تو امریکہ کو غصہ یہ ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود پاکستان’ امریکی مفادات کے لیے اس طرح تعاون نہیں کر رہا جس طرح کرنا چاہیے۔ پتہ نہیں امریکہ کو اور کتنا تعاون چاہیے؟ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا اور ستر ہزار سے زائد جانیں قربان کیں۔
بہرحال اب موجودہ حکومت نے دوست ممالک بالخصوص چین اور سعودی عرب سے دوستانہ روابط بحال کیے ہیں اور ایک بار پھر چین کے تعاون سے سی پیک پر تیزی سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جس کے ثمرات آنے شروع ہو گئے ہیں۔ گوادر ایک ایسی اہم بندرگاہ بننے جا رہا ہے جس کا خواب ترقی یافتہ ممالک دیکھتے ہیں۔
سعودی عرب گوادر میں آئل ریفائنری کی مد میں 10 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے، حال ہی میں کاشغر سے گوادر تک 58ارب ڈالر کا ریلوے لائن کا منصوبہ چین کی طرف سے دیا گیا ہے، دیگر منصوبوں پر بھی تیزی سے کام جاری ہے لیکن لگتا یہ بھی ہے کہ سی پیک کی مخالف طاقتیں بھی پوری قوت سے سرگرم ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے دوستانہ مراسم، رات گئے امریکی سفیر کی فواد چوہدری کے گھر آمد، عمران خان کی امریکی سینیٹرز سے ملاقاتیں اور امریکی سینیٹر کی عمران خان کے حق میں تقریر نے بہت سے خدشات پیدا کر دئیے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بھی پاکستان کو ٹف ٹائم دیا جا رہا ہے اور ہر دفعہ آئی ایم ایف کی ٹیم پہلے سے زیادہ کڑی شکایات سامنے لے آتی ہے۔
پاکستانی معیشت کے اشاریے مثبت ہونے کی خبروں کے ساتھ ہی ایک بار پھر تحریکِ انصاف نے احتجاج کے نام پر انتشار، فساد اور ابتری پھیلانے کا آغاز کر دیا ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے امن و امان کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام بھی بہت ضروری ہے لیکن 2014 میں چینی صدر کی آمد کے موقع پر دھرنا سیاست کرنے والے ایک بار پھر متحرک ہو چکے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی پشت پناہی کرنے والے پاکستان کے دائمی حکمرانوں کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہیں پاکستان کا معاشی استحکام چاہیے یا وہ امریکی امداد اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہی جکڑے رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں عزت و وقار سے سر اٹھا کر جینا ہے یا دنیا میں اپنی ذلت کا تماشا دیکھنا ہے۔ برابری کی بنیاد پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے یا کسی سپر پاور کے بغل بچے کا کردار ادا کرنا ہے۔
اگر پاکستان کو واقعی معاشی خودمختاری و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو بغیر کسی سپرپاور کے دباؤ میں آئے اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دینا ہو گا اور دیگر ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔ سی پیک کے تحت تعمیر ہونے والے پراجیکٹس کو محفوظ بنائے بنا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط کے بغیر معاشی استحکام اور ترقی کا خواب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔