اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کا محاذ خود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے لیے ہزیمت کا باعث بن رہی ہے کیونکہ ان کی حکومت کی جارحانہ حکمت عملی نے ملکی دفاعی نظام کی افادیت پر سوالیہ نشان لگادیے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کے دعوے کے بعد مجموعی طور پر 17 سال اسرائیلی وزیراعظم رہنے والے نیتن یاہو سے استعفے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، اسرائیلی شہری پہلے ہی ان کیخلاف کرپشن کے الزامات اور ان کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف 2019 میں دائر کیے گئے 3 علیحدہ کرپشن کیسز میں رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے الزامات شامل ہیں, نیتن یاہو نے ان الزامات کو جعلی قرار دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے غلط عمل سے انکار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ بندی، امریکی صدر ٹرمپ نے اچانک یہ اعلان کیوں کیا؟
وزیر اعظم نیتن یاہو کا مقدمہ 24 مئی 2020 کو شروع ہوا اور وہ اسرائیل کی تاریخ میں پہلے برسرِ اقتدار وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے بطور فوجداری ملزم عدالت میں پیش ہو کر گواہی دی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق تل ابیب کی ضلعی عدالت نے 11 جون کو نیتن یاہو کے خلاف جاری کرپشن مقدمے کی سماعت ان کی صحت کی خرابی کے باعث منسوخ کر دی، جو بظاہر ایک بہانہ نظر آتا ہے کیونکہ وہ ایران کے خلاف ہر دم دستیاب سربراہ مملکت کے طور پر نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی قانون کے تحت، جب تک سپریم کورٹ انہیں مجرم قرار نہ دے، نیتن یاہو کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، یہ قانونی عمل کئی مہینے جاری رہ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے چند اہم حقائق
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے ہمیشہ تنازعات کے پیچھے اپنا سیاسی کیریئر بچانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ غزہ پر حملے کے بعد فلسطینیوں پر یکطرفہ مکمل جنگ مسلط کرنے کے بعد ایران پر حملہ آور ہوئے اور ایرانی رد عمل میں اسرائیل کا تاریخ میں پہلی مرتبہ اچھا خاصا نقصان کروابیٹھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کو اسرائیل میں ایران سے بڑا خطرہ تصور کیا جارہا ہے، گزشتہ برس نومبر میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے غزہ میں روا رکھے گئے جنگی جرائم پر نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جاچکے ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کے پس پردہ عوامل میں ایک ایران میں رجیم چینج کا ہدف بھی تھا، جسے بظاہر مسترد کیا جاتا رہا لیکن اندرون خانہ اس ایجنڈے پر عالمی طاقتیں عمل پیرا رہیں۔
ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ جنگ بندی کے امریکی اعلان کے تناظر میں پتا چلا ہے کہ جنگ بندی کی درخواست ایران کی جانب سے نہیں بلکہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے کی گئی ہے اور اس ضمن میں امیر قطر کو ثالثی کا کردار سونپا گیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی جانب سے وزیر اعظم نیتن یاہو سے استعفے کا مطالبہ شدت اختیار کررہا ہے کیونکہ انہوں نے اسرائیلی دفاع کو نقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ ایران نے اپنی مزاحمت سے آئرن ڈوم سمیت اسرائیلی کے سہ لہری فضائی دفاعی نظام کو آئینہ دکھادیا ہے۔
اس وقت دلچسپ صورتحال یہ کہ ہے کہ ایران میں شہری اپنے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سڑکوں پر فتح کا جشن مناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جبکہ اسرائیل میں عوامی اکثریت وزیر اعظم نیتن یاہو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے۔