سرکاری نوکری میں نہ گھر بنا نہ گھر بسا، اے ایس آئی کا استعفی

ہفتہ 6 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملازمت اور روزگار کے مسائل میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین طویل عرصے سے ملازمت کرنے کے باوجود قلیل تنخواہ ملنے کی شکایت کرتے نظرآتے ہیں۔ ایسے میں سرکاری نوکری حاصل کرنے والے افراد کا شمار خوش قسمت ترین افراد میں کیا جاتا ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ سرکاری نوکری مل جائے تو آرام دہ زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ پاکستان میں تو ویسے ہی سرکاری نوکری کو ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔ اس کو پانےکے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے جاتے، لیکن چند افراد ایسے ہیں جو سرکاری نوکری سے زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔

ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے، جب صحافی شیراز حسن نے پنجاب پولیس کے اے ایس آئی کا استعفیٰ اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پر شیئر کیا جس میں لکھا تھا 14 سال نوکری کرنے کے بعد میں اپنا استعفیٰ پیش کر رہا ہوں کیونکہ ایک رکشہ ڈرائیور بھی مجھ سے زیادہ پیسے کما لیتا ہے۔

اپنے استعفے میں اے ایس آئی جنید احمد کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی کے 14 سال پولیس محکمے میں ملازمت کرتے ہوئے گزارے ہیں۔ اور اس عرصے میں مجھ پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہیں لگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنا گھر بنانے اور اس کے بعد  شادی کرنے کے لیے دو بار چھٹی کی درخواست دی۔

اس کے علاوہ  میں ٹرانسفر کے لیے بھی درخواست دے چکا ہوں جس کے آرڈر بھی جاری کر دیے گئے تھے لیکن دو دن بعد ہی وہ آرڈر کینسل کر دیے گئے۔

اے ایس آئی جنید احمد نے اپنے استعفے میں لکھا کہ میں نے دوبارہ لمبی چھٹی کے لیے درخواست دی ہے جو زیرِ غور ہے، میں نے درخواست  میں  ذکر کیا ہے کہ میں 38 سال کا ہوں اور اپنا گھر مکمل کرنے کے بعد میں شادی کروں گا۔

وہ استعفے میں تنخواہ کی بھی شکایت کرتے نظر آئے کہ میری تنخواہ 48 ہزار ہے جو آدھے سے زیادہ محکمانہ کاموں پر خرچ ہو جاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک رکشہ ڈرائیور مجھ سے زیادہ کما لیتا ہے، میں اس نوکری کو جاری نہیں رکھ سکتا لہذا میرا استعفیٰ قبول کیا جائے۔

اے ایس آئی کا استعفیٰ سوشل میڈیا کی زینت بنا تو صارفین نے حکومت پر خوب تنقید کی۔

رانا عمران نامی صارف نے لکھا کہ جو تنخواہ حکومت اپنے 16ویں گریڈ سے تعلق رکھنے والے ملازم کو دیتی ہے اس سے زیادہ پیسے ایک مستری، سبزی فروش اور چاٹ کا ٹھیلا لگانے وال کما لیتا ہے۔

ایک صارف نے لکھا کہ جو بھی ایمانداری سے نوکری کر رہا ہے اس کا ہر محکمے میں یہی حال ہے، وہ مفت کا ملازم ہے اس کے پاس اتنی بچت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے کپڑے بھی دلوا سکے۔

 جہاں کچھ لوگوں نے استعفے کی بنیاد پر حکومت اور محکمے کو تنقید کا نشانہ بنایا وہیں چند صارفین نے اس پر دلچسپ تبصرے بھی کیے۔ ماریہ انجم نامی صارف نے شرارتی انداز میں لکھا کہ نوکری ہوتے ہوئے تو شاید شادی کے تھوڑے بہت امکانات تھے لیکن اب نوکری گئی تو وہ امکان بھی ختم ہو گیا۔

ایک صارف نے شاعرانہ انداز اپناتے ہوئے لکھا کہ میں سچ کروں گا پھر بھی ہار جاؤں گا۔ شاید وہ لکھنا چاہتے تھے کہ میں سچ کہوں گا اور پھر بھی ہار جاوں گا۔

یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی سرکاری ملازمین مہنگائی میں مسلسل اضافے اور کم تنخواہوں کا رونا روتے دکھائی دیتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ایف بی آر کے ایک ملازم نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھا تھا کہ تنخواہ کم اورمہنگائی زیادہ ہے، گھریلو اخراجات تنخواہ سے پورے نہیں ہو رہے لہذا کرپشن کرنے کی اجازت دی جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp