اگر دنیا میں انصاف واقعی غالب ہوتا، تو ہم نے امریکی B2 بمبار طیاروں کو ڈیمونا اور دیگر اسرائیلی مقامات پر تباہ کن بم برساتے دیکھا ہوتا۔ آخرکار، اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے۔
مستزاد یہ کہ، اسرائیل نے اس معاہدے میں شمولیت ہی اختیار نہیں کی، جس کے باعث وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے دائرۂ اختیار سے باہر رہا، اور آج تک اس کی ایٹمی تنصیبات کا کوئی عالمی معائنہ نہیں کیا گیا۔
جو لوگ ایران پر اسرائیل کے یکطرفہ حملے کو اُن ایرانی رہنماؤں کے بیانات کی بنیاد پر درست قرار دیتے ہیں، جن میں اسرائیل کے مٹانے کی بات کی گئی، وہ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں کہ بن یامین نیتن یاہو نے 1996 میں وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے ایرانی حکومت کو مٹانے کی باتیں کی ہیں۔ ایران کی بڑھکوں نے خود اس کے لیے تباہی کا سامان کیا.
مغرب کی جانب سے اسرائیل کے ایران پر حملے کی منافقانہ حمایت کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ وہ طویل عرصے سے اسرائیل کے فلسطین پر جاری حملوں کی حمایت کرتا آ رہا ہے، اگرچہ حالیہ دنوں میں کچھ ممالک کی حمایت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
یوکرین پر حملے کے باعث روس پر مغرب کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں، اسرائیل کو دی گئی کھلی چھوٹ سے واضح تضاد رکھتی ہیں۔
مغرب جس بین الاقوامی ضابطۂ قوانین پر مبنی نظام کا ہمیشہ پرچار کرتا رہا ہے، وہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہم عرب دنیا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مگر ان تنازعات پر ہمارا اصولی مؤقف اس بات کی روشن مثال ہے کہ اقوام، ان کے رہنما اور عوام کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مغربی رہنماؤں کی باعثِ افسوس بات یہ ہے کہ وہ اب بھی اپنے مبینہ اصولوں کے بارے میں کھوکھلے دعوے دہراتے رہتے ہیں۔ تاہم، خاص طور پر فلسطینی قوم کی اسرائیلی قبضے سے آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے، مغرب میں عوام کی بڑی تعداد نے اپنے رہنماؤں کے جھوٹے مؤقف کو مسترد کر دیا ہے۔
مختلف مذاہب، رنگوں اور عمروں سے تعلق رکھنے والے افراد فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی حمایت کا اظہار مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے رہنماؤں کے مؤقف میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔
ہفتے کی شب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران میں 3 ایٹمی تنصیبات پر بمباری کے لیے اپنی فوج کو کارروائی کی اجازت دے دی۔ یہ قدم اٹھاتے ہوئے، انہوں نے نیتن یاہو کی ترغیبات اور اس کے ایران پر جاری غیر قانونی حملے میں مبالغہ آمیز کامیابیوں کی تشہیر پر یقین کر لیا۔
انہوں نے 2 دہائیاں قبل اپنی ہی قیادت کے عراق پر غیر قانونی حملے کی بہادری سے مخالفت کی تھی۔ یاد رکھیں (غیر ارادی نتائج کا قانون) عراق اور افغانستان میں مؤثر ثابت ہوا، اور یہ قانون یقیناً ایران میں بھی اپنا اثر دکھائے گا۔
اب بھی سفارت کاری کی طرف واپسی ممکن ہے۔ دیگر مغربی رہنماؤں کے برعکس، صدر ٹرمپ کو دہرا معیار نہیں اپنانا چاہیے۔ اُنہیں چاہیے کہ سعودی عرب اور خلیجی تعاون کونسل میں اپنے دوستوں کی بات سنیں، جو نیتن یاہو کے برعکس جنگ نہیں بلکہ امن چاہتے ہیں، بالکل ٹرمپ کی طرح۔
تاہم، مَیں دہرا معیار ختم کر سکتا ہوں، نہ نتن یاہو کے نسل کش رویے کو روک سکتا ہوں، نہ ایران کی مشتبہ سرگرمیوں کی تاریخ کو بدل سکتا ہوں، نہ ہی فلسطینی قیادت کی آپس کی لڑائیوں پر قابو پا سکتا ہوں۔ میں یورپی قیادت کی کم ہمتی، صدر ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ میں امن لانے کا دعویٰ (جبکہ وہ خود ایران پر جنگ مسلط کر رہے ہیں) اور اُن کی جانب سے ایران کو جنگ بندی کی اپیل قبول کرنے پر دی گئی مبارکباد، یا اُن کا نتن یاہو کے لیے حد سے بڑھی ہوئی مدح سرائی بھی نہیں روک سکتا۔
میں وہی کروں گا جو میرے مرحوم والد، شاہ فیصل، نے اُس وقت کیا تھا جب اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اپنے پیشرو فرینکلن روزویلٹ کے وعدوں سے انحراف کیا اور اسرائیل کے قیام میں مدد دی۔ میرے والد نے ٹرومین کے صدارت سے سبکدوش ہونے تک امریکا کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مَیں بھی اُس وقت تک امریکا کا سفر نہیں کروں گا جب تک صدر ٹرمپ صدارت سے سبکدوش نہیں ہو جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزادہ ترکی الفیصل واشنگٹن اور لندن میں سعودی عرب کے سابق سفیر رہ چکے ہیں، اور مملکت کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔












