امریکا میں لابنگ: تحریک انصاف کیا چاہتی ہے؟

اتوار 7 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف امریکا میں لابنگ کی پھرپور کوشش کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کوششوں کا سیاق وسباق کیا ہے؟ اور کیا واقعی امریکی حمایت کے نتیجے میں عمران خان کی اقتدار میں واپسی کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے؟

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امریکی نظام حکومت کیسے کام کرتا ہے۔ ملک میں صدارتی نظام ضرور موجود ہے مگر ریاستیں بڑی حد تک خود مختار ہیں۔  ہر ریاست سے منتخب ہونے والے ممبران کانگریس اور سینیٹ اپنے ووٹرز کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان سے چندہ اکٹھا کر کے انتخاب لڑتے ہیں۔ ان کے حامی وقتاً فوقتاً اپنے گھروں میں فنڈ ریزنگ تقریبات منعقد کرتے ہیں، جن میں چند سو یا چند ہزار ڈالر کا چندہ جمع ہوتا ہے۔ تقریباً ہر ریاست میں پاکستانی ڈاکٹرز اور کاروباری افراد بھی ایسی تقریبات منعقد کیا کرتے ہیں۔

اگر کوئی چندہ دینے والا یا ووٹر اپنے نمائندے کی توجہ اپنے آبائی ملک میں کسی مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہے تو وہ نمائندہ اس پر بیان جاری کرنے کو آسانی سے تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں اس طرح مذکورہ کمیونٹی کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ماضی میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین ڈینا روہرا باقر بلوچستان کی آزادی کے حق میں بارہا بیانات دیا کرتے تھے مگر اس کا امریکی انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

تحریک انصاف نے معیشت کی بہتری کا منصوبہ امریکی انتظامیہ کے سامنے پیش کیا ہے۔

ممبران کانگریس اور سینیٹ کے بیانات کی نہ کوئی قانونی حیثیت ہے نہ اس کا امریکی صدر پر کوئی دباؤ ہوتا ہے، تاہم پاکستان میں ایک تاثر ضرور قائم کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حالیہ کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں، کیونکہ اس سلسلے میں براڈ شرمن، ایڈم شف، ٹڈ لیو سمیت کئی ممبران سے خطوط لکھوائے گئے ہیں اور بیانات دلوائے گئے ہیں۔ سابق سفارتکار زلمے خیل زاد بھی انہی کوششوں کا حصہ ہیں، اس لیے تحریک انصاف نے امریکا میں باقاعدہ لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔

ان کوششوں میں مرکزی کردار کیلیفورنیا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر آصف محمود کا ہے۔ موجودہ امریکی نائب صدر کمیلا ہیرس بھی کیلیفورنیا سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے عملی سیاست کا آغاز بطور ریاست کی اٹارنی جنرل کیا تھا۔

ڈاکٹر آصف محمود شروع سے کمیلا ہیرس کی انتخابی مہم میں ان کی حمایت کرتے رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے کافی قریب ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر آصف خود بھی کانگریس کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کے ٹکٹ کے امیدوار رہ چکے ہیں اور 2024ء میں کانگریس کے انتخابات کے لیے ایک بار پھر امیدوار کے طور پر مہم شروع کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر آصف محمود نے اپنی سیاسی سرگرمیوں اور ممبران کانگریس اور سینیٹ کو استعمال کرکے پی ٹی آئی کے حق میں راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم ابھی تک امریکی انتظامیہ نے ایسی کسی بھی کوشش میں آواز نہیں ملائی۔ پچھلے ایک سال میں جب بھی امریکی وزارت خارجہ یا وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے اس پر سوال کیا گیا تو ان کا یہی اصرار رہا کہ عمران خان کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں اور پاکستان میں کسی قسم کی سیاسی تبدیلی میں امریکا کا کوئی کردار نہیں۔ یہ فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے ۔

حال ہی میں نائب صدر کمیلا ہیرس سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر آصف محمود نے یہ دعویٰ کیا کہ ان سے پاکستانی سیاست پر گفتگو کی ہے اور انہیں سیاسی کارکنوں سے ہونے والی مبینہ زیادتیوں سے آگاہ کیا ہے۔ تاہم نائب صدر یا ان کے دفتر کی جانب سے اس ملاقات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر آصف محمود شروع سے کمیلا ہیرس کی انتخابی مہم میں ان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

کانگریس مین براڈ شرمن کو بھی ایک انٹرویو ممیں وضاحت کرنا پڑی کہ ان کا بیان صرف انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے حوالے سے تھا اور اسے عمران خان کی حمایت نہ سمجھا جائے ۔

حال ہی میں امریکی سفیر فواد چوہدری کے گھر بھی گئے ہیں اور تحریک انصاف کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں معیشت کی بہتری کا منصوبہ امریکی انتظامیہ کے سامنے پیش کیا ہے۔

جب اس دعوے کی تصدیق کے لیے امریکی محمکہ خارجہ کے ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسے حیرت انگیز قرار دیا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر متعلقہ اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور امریکا دوسرے ممالک سے براہِ راست ایسی کسی معلومات کا مطالبہ نہں کیا کرتا۔

پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل بھی امریکا پہنچ چکے ہیں اور اپنی ملاقاتوں کی تصاویر اور وڈیوز جاری کر رہے ہیں۔ تاہم کسی ممبر کانگریس اور سینٹ نے اپنی جانب سے ایسی کسی ملاقات کے بعد کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکا میں کسی عوامی نمائندے سے ملاقات پاکستان کی طرح کوئی مشکل کام نہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان ممبران کو متوجہ کرنے کے لیے تحریک انصاف پاکستان میں سیاسی کارکنوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کا مقدمہ پیش کر رہی ہے۔ پاکستان میں متعدد بار مارشل لا اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے باعث یہ موضوع تاریخی طور پرامریکا میں دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ تاہم کسی بھی ملاقات میں عمران خان کی جانب سے لہرائے جانے والے سائفر یا مبینہ رجیم چینج کی کہانی کو نہیں دہرایا  گیا۔ شاید تحریک انصاف جانتی ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں کہانی الٹی بھی پڑ سکتی ہے۔

امریکی سفیر کا متعلقہ ملک میں اپوزیشن رہنماؤں سے ملنا بھی ان کے مروجہ طریقہ کار کا حصہ ہے۔

آخری اور اہم سوال یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کا تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہو گا اور کیا امریکی حمایت انہیں اقتدار واپس دلوا سکتی ہے؟ یہ تو واضح ہے کہ ان ممبران پارلیمنٹ کے بیانات کا امریکی انتظامیہ پر کوئی اخلاقی اور قانونی دباؤ نہیں ہے ۔

تحریکِ انصاف کی معاشی ٹیم نے عمران خان کو یہ احساس بھی دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ کے خلاف جارحانہ بیانات ان کو ملک کے اندر تو مقبولیت دلا چکے ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کے لئے مشکلات ہو سکتی ہیں ۔ خاص طور پر اس صورت میں جب معیشت کے سدھرنے کا کوئی فوری امکان نہیں ہے اور پاکستان کا آئی ایم ایف پر انحصار برقرار رہے گا ۔ ایسی صورت میں امریکہ کی جانب سے سردمہری کا رویہ عمران خان کی حکومت کے لئے حالات مشکل کر سکتا ہے ۔

اندازہ یہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف ان ملاقاتوں اور بیانات کو امریکی انتظامیہ پر اثر انداز ہونے سے زیادہ پاکستان میں ایک عوامی تاثر قائم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے کہ شاید امریکا اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال چکا ہے۔

ذرائع کے مطابق امریکی سفیر کا متعلقہ ملک میں اپوزیشن رہنماؤں سے ملنا بھی ان کے مروجہ طریقہ کار کا حصہ ہے۔ اس بنیاد پر غیر حقیقی اندازے قائم نہیں کرنے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ عوام کی منتخب کردہ ہر حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے اور یہ تعاون آئندہ بھی جاری رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp