پاکستان میں اس وقت آئینی ادارے اور سیاست دان جس انداز میں باہم گتھم گتھا ہیں، یہ شاید ہمارے ان جرائم کی سزا ہے جو ہم نے اہل بنگال کے خلاف کیے تھے۔ فطرت ایک فرد یا چند افراد کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتی ہے، انہیں سزا نہیں دیتی، غلطی کے بعد سنبھلنے کا موقع دیتی ہے لیکن ایک قوم کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی، اسے سزا ضرور دیتی ہے۔ ہم نے ایک غلطی نہیں کی، بہت بڑے گناہ کیے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اگر متحدہ پاکستان کی باگ ڈور بنگال سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے ہاتھ ہوتی تو پاکستان آج دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا۔ سبب یہ ہے کہ بنگالی قیادت مغربی پاکستان کے قائدین سے کہیں زیادہ باشعور اور بالغ نظر تھی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بنگالیوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو بے مثال ترقی کی راہ پر چلایا۔ ہمیشہ بہترین فیصلے کیے، اور ہر مرحلے پر کامیابی ہی سمیٹی۔ اس وقت بھی جنوبی ایشیا میں اس قوم کی ترقی کے چرچے ہیں۔ ذرا کوئی مطالعہ کرے بنگالی قوم کی جدوجہد کا، وہ بے شمار مسائل کی شکار رہتی ہے لیکن اس کے باوجود مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔
گزشتہ 75 برس سے جب بھی کوئی تاریخِ پاکستان لکھتا یا پڑھتا ہے، وہ آغاز بنگال ہی سے کرتا ہے۔ اسے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار بنگال ہی سے واسطہ پڑتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ بنگال (ڈھاکہ) ہی میں بنی۔ یہ بھی علم ہوگا کہ مسلمانوں کی پہلی حکومت بنگال میں 1937ء میں قائم ہوئی۔ شیر بنگال ابو القاسم فضل الحق وزیر اعلیٰ بنگال بنے، ان کے دور کو اہل بنگال کی ترقی کا بہترین دور قرار دیا جاتا ہے۔
یہ وہی مولوی فضل الحق تھے جنہوں نے عجب جوش و خروش سے 23مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان پیش کی تھی، جس میں ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے حامل جغرافیائی یونٹوں کو اکٹھا کرکے آزاد اور خودمختار مملکتیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پھر یہ اہل بنگال ہی تھے جنہوں نے 9 اپریل 1946ء میں قرارداد دہلی میں واضح طور پر پاکستان کی صورت میں ایک واحد اور متحد مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا ورنہ بقول لیاقت علی خان ’ہم ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے، ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے قومی وطن میں ہماری آزاد ریاست ہو‘ (روزنامہ انقلاب، 17مارچ 1941ء)۔
قرارداد دہلی کی تجویز حسین شہید سہروردی نے دی تھی جو اس وقت بنگال کے وزیر اعظم تھے۔ پھر انہوں نے پاکستان کی خاطر اپنی وزارت عظمیٰ کی قربانی دی۔ لیکن انہی حسین شہید سہروردی کے ساتھ قیام پاکستان کے بعد کس قدر برا سلوک کیا گیا، اس کا تذکرہ بیگم شائستہ اکرام اللہ کی کتاب میں پڑھ لیں جو انہوں نے حسین شہید سہروردی کی سوانح کے طور پر لکھی۔ حسین شہید سہروردی بانی پاکستان قائد اعظم کے نہایت پسندیدہ ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ حسین شہید سہروردی کے ساتھ برا سلوک کرنے والوں نے ہی بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے بھی برا سلوک کیا۔
قائد اعظم کے انتقال کے بعد پاکستان پر قبضہ کرنے والوں نے اہل بنگال سے کہاں اور کیا برا سلوک کیا، ایک طویل داستان ہے۔ میری نوجوان نسل سے پُر زور گزارش ہے کہ وہ سرکاری ’تاریخِ پاکستان‘ کے ساتھ ساتھ دیگر تاریخی کتب کا مطالعہ بھی کریں تاکہ انہیں اصل تاریخِ پاکستان معلوم ہو۔ انہیں پتا چلے کہ ہم نے کیسے اچھے، قابل لوگوں کو چُن چُن کر پاکستان سے دور بلکہ بہت دور کیا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ پاکستان پر قبضہ کرنے والے کسی بھی صورت اہل بنگال کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے، وہ ان سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ یہ بھی پتا چلے گا کہ ایوب خان نے اپنے وزیر قانون (سابق چیف جسٹس) محمد منیر کو خط لکھا تھا کہ کسی طرح بنگالیوں سے جان چھڑاؤ اور پھر انہوں نے بنگالیوں سے جان چھڑا کر ہی دم لیا۔ ویسے تو بنگالیوں سے جان چھڑانے کا آغاز قیام پاکستان کے بعد پہلے روز سے ہی ہوچکا تھا جب اہل بنگال کی زبان کاٹ ڈالنے کا اعلان کیا گیا۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کی مجموعی آبادی 6 کروڑ 90 لاکھ میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی 4کروڑ 40 لاکھ تھی۔ اور ارض بنگال میں زیادہ تر بنگالی زبان بولی جاتی تھی۔ ان حقائق کے باوجود پاکستانی آبادی کے غالب حصہ کو ان کی اپنی زبان سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے خلاف مشرقی پاکستان میں احتجاج ہوا، 21 فروری 1952ء کو احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسا دی گئیں، متعدد مظاہرین ہلاک ہوئے لیکن بنگالی زبان کو تروڑ مروڑ کر بنگال کے کسی دریا میں پھینک دینے کی کوشش ناکام ہوئی، بالآخر 7 مئی 1954ء کے روز بنگلہ زبان کو پاکستان کی دوسری سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کرنا پڑا۔
16-17 برس بنگلہ زبان بھی پاکستان کی سرکاری زبان رہی، اس دوران بنگالیوں کے ساتھ برا سلوک جاری رہا حتیٰ کہ حسین شہید سہروردی کے ایک ادنیٰ سے کارکن شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں بنگالیوں نے اپنے علاقے کو متحدہ پاکستان سے الگ کر لیا۔
آج مغربی پاکستان میں ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ بنگالی ہم سے الگ ہو کر جنوبی ایشیا کی تیز رفتار معیشتوں میں شامل ہوگئے اور ہم ترقی معکوس کرتے ہوئے سب سے مفلوک الحال اقوام میں شامل ہوگئے۔ آج رائے عامہ کا جائزہ لینا چاہیے کہ مغربی پاکستان میں کتنے فیصد لوگ بنگالیوں کی علیحدگی کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ اگر بنگالی زبان کو بھی روز اول ہی سے سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جاتا تو پاکستان کا کیا بگڑ جاتا ؟ 10 سال کی تاخیر کے بعد سو جوتے سو پیاز کھائے تو کیا سدھر گیا پاکستان کا؟ ور ایک آخری سوال کہ بنگالی زبان کو ختم کرنے کی کوشش کرنے والے اردو زبان کو بنگالیوں پر مسلط کرنے والے 75 برس میں بھی اردو زبان کو سرکاری زبان کیوں نہ بنا سکے؟ پاکستان کے تمام اداروں میں آج بھی انگریزی زبان ہی سرکاری زبان کیوں؟