شیخ حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت ختم ہونے کے بعد بنگلہ دیش بھارت تعلقات میں ایک تناؤ ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری وزیر اعظم ہیں۔ مارچ 2025 میں ڈاکٹر یونس نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے بعد بنگلہ دیش کے تعلقات پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ تیزی سے بہتر ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش کی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت چین اور ایشیائی مالیاتی اداروں کی طرف مائل ہے۔ 2025 میں بنگلہ دیش نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 400 ملین ڈالر قرض کلائمیٹ چینج کی مد میں حاصل کیے ہیں۔ یہ بنک ایشیا میں انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور اس کا صدر دفتر بیجنگ میں ہے۔ امریکا کے یو ایس ایڈ پروگرام میں بڑی کٹوتی کے بعد اس بینک نے بروقت بنگلہ دیش کو درکار مالی مدد فراہم کی ہے۔
ڈاکٹر یونس کے دورہ چین کے موقع پر 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری، قرض اور گرانٹ کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی۔ انفراسٹرکچر، ہیلتھ کیئر، روبوٹکس اور ڈیفنس ٹیکنالوجی میں چین نے بنگلہ دیش کو مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ چینی شمولیت کے تحت بنگلہ دیش کے تیستا دریا منصوبے میں چینی شمولیت اور بھارتی سلگڑی کاریڈور کے قریب چین کی ہوائی اڈے کی تجویز بھارت کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہو سکتا ہے۔ سلگڑی کاریڈور بھارت کو شمال مشرقی سات ریاستوں سے ملاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران-اسرائیل جنگ بندی کیوں اور کیسے ہوئی؟
19سے 24 جون 2025 کو چینی صوبے یوننان کے شہر کنمنگ میں نویں چین۔ جنوبی ایشیا نمائش ہوئی۔ اس موقع پر چھٹے چین۔ جنوبی ایشیا تعاون فورم کا بھی انعقاد ہوا۔ 19 جون کو سائڈ لائن پر پاکستان، چین اور بنگلہ دیش کے سفارتکاروں کے درمیان ایک اہم سہ فریقی ملاقات ہوئی۔
کنمنگ ملاقات میں چینی نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ، بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکریٹری خارجہ روح الامین صدیقی، پاکستان کے ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ عمران احمد صدیقی نےشرکت کی۔ پاکستانی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ اس اجلاس میں ورچوئلی شریک ہوئیں۔
چین اور پاکستان نے اس ملاقات کو آئندہ ’تعاون کے سہ فریقی طریقہ کار کی افتتاحی نشست‘ قرار دیا۔ یہ سہ فریقی فارمیٹ تجارت، سمندری امور، موسمیاتی تبدیلی، زراعت، تعلیم اور ثقافت میں تعاون کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا۔ بنگلہ دیش نے اسے ’غیر رسمی ملاقات‘ کہا ہے، اس احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا موجودہ حکومتی سیٹ اپ عبوری ہے، جس کے پاس سفارتی پیشرفت کی گنجائش محدود ہے۔
مزید پڑھیے: جنگ کی قیمت کمر توڑ دیتی ہے
بھارت، جو خود کو بنگلہ دیش کی آزادی کے اکلوتے حامی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ بھارت عوامی لیگ کی حسینہ واجد حکومت کے ساتھ قریبی شراکت داری میں معیشت، سیکیورٹی اور علاقائی فورمز میں تعاون اور ہم آہنگی قائم رکھے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر یونس حکومت نے بھارت کے اثر سے ’آزاد خارجہ پالیسی‘ اپنائی ہے، اس سے بھارت کو اپنا اثر محدود ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
چین پاکستان بنگلہ دیش کا ابھرتا ہوا محور بھارت کے لیے نئے اسٹریٹجک چیلنج لایا ہے۔ چین جنوبی ایشیا میں اپنی اقتصادی رسائی کو بیلٹ اینڈ روڈ اور اس کے فلیگ شپ سی پیک پراجیکٹ، گوادر پورٹ اور ہمبنٹوٹا (سری لنکا ) جیسے منصوبوں کے ذریعے وسعت دے رہا ہے۔ بھارت کو لگتا ہے کہ چین اسے ’اسٹرنگ آف پرلز‘ حکمتِ عملی کے تحت گھیرے میں لے رہا ہے۔
چین بنگلہ دیش کو ہی پاکستان کے قریب نہیں لا رہا، افغانستان سے بھی پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے میں چین کا اہم کردار ہے۔ بھارت کے ساتھ حالیہ تناؤ میں پاکستان کے بطور ریاست مضبوط ہونے کا تاثر قائم ہوا ہے ۔ مضبوطی کا یہ تاثر اب ڈرائیونگ فورس کی طرح پاکستان کے کام آ رہا ہے۔
خواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ ہمیں تماشائی نہیں بنے رہنا چاہیے۔ ایک طاقتور ریجنل پلیئر جو ہم ہیں کی طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس بیان کو دیکھیں تو سفارتی معاملات کے حوالے سے حکومتی اعتماد چھلکتا ہے۔ پاکستان کو درپیش سفارتی مشکلات میں تو واضح کمی آتی دکھائی دے رہی ہے ۔ گھر کے اندر مسائل کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے نظرثانی درخواست پر فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کے بعد حکومتی اتحاد کے نمبر 2 تہائی اکثریت کے لیے درکار 224 سے بھی بڑھ کر 232 ہو گئے ہیں ۔ پی ٹی ائی کے اراکین تکنیکی طور پر آزاد ہو گئے ہیں۔ اب وہ اپنی پارٹی تبدیل کریں تو ان کے لیے کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومت بہت سے ایسے سیاسی قانونی اقدامات اٹھا سکتی ہے جس سے اندرون ملک کمزور حکومت کا تاثر بھی دور ہو جائے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔