پاکستان تحریک انصاف کے اسیر رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو حکومت سے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے، پابند سلاسل رہنماؤں کی جانب سے پارٹی قیادت کو لکھے گئے خط میں حکومت سے مذاکرات پر زور دیا گیا ہے۔
پارٹی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، سابق وزرا میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے تحریر کردہ خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملک اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کا خط سامنے آنے کے بعد امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید ایک مرتبہ پھر سے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا اغاز ہوگا، وی نیوز نے مسلم لیگ ن کے رہنما سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پی ٹی آئی اور حکومت کے مذاکرات کا اغاز ہونے جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:حکومت سے مذاکرات کریں، پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو تجویز دے دی
لیگی رہنما اور وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے بتایا کہ حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہے، حال ہی میں بجٹ اجلاس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف خود اپوزیشن لیڈر کی نشست پر گئے اور اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر سے کہا تھا کہ ملک کے لیے ہم سب کو مل بیٹھ کر بات کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔
’حکومت نے کبھی بھی اپنے دروازے اپوزیشن کے لیے بند نہیں کیے البتہ اپوزیشن ہی مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق پی ٹی آئی کبھی کہتی ہے کہ اس نے حکومت سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ مذاکرات کرنے ہی نہیں ہیں۔ ’احتجاج کرنا ہے تو پی ٹی آئی ابھی تک مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اگر سنجیدہ ہو جائے تو مذاکرات آج ہی شروع ہو سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں:حکومت سیاسی مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو کوئی ایک مثبت قدم اٹھائے، پی ٹی آئی
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ایک طرف تو پی ٹی آئی رہنما مذاکرات کے لیے پارٹی رہنماؤں کو خط لکھ رہے ہیں اور دوسری جانب گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اداروں کو دھمکایا ہے۔
’اس صورتحال میں کسی پارٹی کے ساتھ کیسے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں کہ جب وہ ٹکراؤ کی بات کر رہے ہوں جب وہ اداروں کو دھمکا رہے ہوں، کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ملک میں فساد ہو اسی لیے ہماری حکومت بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن پی ٹی آئی والے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔‘