پشاور میں پولیس اور محکمہ ایکسائز آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ چمکنی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایکسائز اہلکاروں کو گرفتار کرتے ہوئے حوالات میں ڈالا تھا جس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔
ایکسائز اہلکاروں نے خفیہ اطلاع پر نادرن بائی پاس پر ناکہ لگایا ہوا تھا جہاں پولیس کے مطابق اس لیے کارروائی کی گئی کہ ان کو اطلاع ملی تھی کہ پولیس کی وردی میں ملبوس افراد دہشت گردی کر سکتے ہیں۔
پولیس کا موقف
پولیس کے مطابق ایکسائز اہلکاروں کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ تصدیق کے لیے تھانے لائے تھے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ موجودہ ملکی سیکیورٹی صورتحال اور خفیہ اداروں کی جانب سے پولیس وردیوں میں دہشت گردوں کی جانب سے کسی ممکنہ دہشت گردی کے تھریٹ الرٹ کے بعد پولیس کی جانب سے سیکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق اسی تناظر میں تھانہ چمکنی پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ این ایچ اے نادرن بائی پاس دفتر کے قریب جہاں ایس ایچ او شکیل خان کو شہید کیا گیا تھا وہاں پر پولیس سے ملتے جلتے اور کالے کپڑوں میں چند مشتبہ افراد پرائیویٹ گاڑی میں موجود ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ ایس ایچ او چمکنی افتخار احمد پولیس نفری کے ہمراہ فی الفورموقع پر پہنچے تو وہاں موجود پرائیویٹ افراد موقع سے فرار ہوگئے جبکہ پولیس وردی میں ملبوس مبینہ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے تصدیق کرانے سے انکار کرکے ایس ایچ او افتخار احمد کے ساتھ گالم گلوچ شروع کی جس پر پولیس ٹیم انہیں تصدیق کے لیے تھانہ چمکنی لے آئی اور بعد ازاں ایکسائز افسران کی جانب سے ان کی تصدیق کے بعد انھیں چھوڑ تے ہوئے ایکسائز افسران کے حوالے کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ ایکسائز اہلکار سینیئر رینک کے آفیسرز کے بغیر ہی پشاور کے مختلف علاقوں میں پولیس طرز کی وردیوں میں ناکہ بندیاں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور اپنی ناکہ بندی کی پولیس کو اطلاع بھی نہیں کرتے جس پر عوام کی جانب سے ان کو بے جا تنگ کرنے کی درجنوں شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔
واقعہ سے متعلق ایس پی رورل ظفر احمد خان کو تحریری درخواست پیش کر دی گئی ہے جس کی بابت اصل حقائق معلوم کرنے کی خاطر انکوائری شروع کردی گئی ہے۔
ایکسائز حکام کا موقف
دوسری جانب ایکسائز کے ایک اہلکار نے بتایا کہ انھیں اسلحہ اور منشیات اسمگلنگ کی اطلاعات تھیں جس پر ناکہ بندی کرکے چیکنگ کر رہے تھے تو اس دوران پولیس نے انھیں ڈیوٹی سے روکا اور گرفتار کر لیا۔
انہوں نے بتایا کہ گرفتاری کے باعث وہ چیکنگ نہیں کر سکے اور انہیں لگتا ہے کہ پولیس اور اسمگلرز آپس ملے ہوئے تھے اور ملی بھگت سے یہ کام کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے اسمگلرز سامان نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔