امریکا کا ممکنہ ڈیفالٹ: وجوہات اور پاکستان پر ممکنہ اثرات

پیر 8 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا کی وزیر خزانہ جینیٹ یلین نے ایک بار پھر اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر قرضے کی حد پر فوری اقدامات نہ کیے تو امریکا ایک ماہ کے دوران ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ امریکا میں قرضے کی حد میں اضافے کے حوالے سے ریپبلیکنز  اور صدر جو بائیڈن کے درمیان قضیہ اس وقت کھڑا ہوا ہے جب ریپبلیکنز نے قرضے کی حد کو بڑھانے کے لیے اخراجات میں کمی کی شرط عائد کر دی ہے، جب کہ صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی شرط کی مخالفت کریں گے۔

امریکا کی قرضے کی حد کیا ہے؟

پاکستان کی طرح امریکا کا بجٹ بھی خسارے کا ہوتا ہے اور امریکی حکومت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرضے لیتی ہے۔ امریکی حکومت  کی قرضہ لینے کی حد 31.381 ٹریلین ڈالرز ہے۔ 19 جنوری 2023ء کو امریکی حکومت نے قرضہ لینے کی اس حد کو چھو لیا تھا۔ اس وقت سے امریکی وزارت خزانہ غیر معمولی اقدامات کے ذریعے اپنے بلز کی ادائیگی کے لیے ڈالرز کا بندوبست کر رہی ہے۔ کریڈٹ ریٹینگ ایجنسی موڈیز کے مطابق 18 اگست کے بعد امریکی حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں رہے گی اور یہ دن امریکی معیشت کا X Day ہو گا۔

امریکی حکومت  کی قرضہ لینے کی حد 31.381 ٹریلین ڈالرز ہے۔

قرضے کی حد کو بڑھانے کو معاملے پر امریکا صدر جو بائیڈن 9 مئی کو ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز رہنماؤں  کے ساتھ  میٹنگ کرنے جا رہے ہیں ۔

اگر امریکا ڈیفالٹ کر گیا تو وہاں کیا ہو گا؟

وائٹ ہاؤس کی کونسل آف اکنامک ایڈوائزر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس ڈیفالٹ کے نتیجے میں امریکی معیشت کو ریورس گیئر لگے گا اور اگر یہ ڈیفالٹ لمبے عرصے کے لیے چلا تو امریکی معیشت میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی جس کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ اسی کے ساتھ اس ڈیفالٹ کی وجہ سے امریکا میں صحت کی سہولیات، اسکولوں میں سرکاری کھانے، ریٹائرڈ لوگوں کی مراعت اور  تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں جیسے مسائل کا سامنا ہو گا۔

کونسل آف اکنامک ایڈوائزر کے مطابق امریکا نے پچھلے کچھ سالوں میں معاشی طور پر جو بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس میں 12.6 ملین نئی نوکریاں اور پائیدار ترقی کے اشاریے شامل ہیں، وہ سب ختم ہو جائیں گے۔

عالمی معیشتوں کو کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا؟

انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے مطابق اگر امریکی رہنما قرضے کی حد کو بڑھانے یا معطل کرنے میں ناکام رہے تو  یہ ڈیفالٹ عالمی فنانشل مارکیٹس میں افراتفری کی صورتحال برپا کر دے گا۔ موڈیز کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب امریکی معیشت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی معیشتیں مہنگائی اور بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں امریکا کا ڈیفالٹ کرنا پوری دنیا کے لیے شدید اکنامک کرائسز کا باعث بنے گا۔

پاکستان کی طرح امریکا کا بجٹ بھی خسارے کا ہوتا ہے اور امریکی حکومت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرضے لیتی ہے۔

شرح سود میں اضافہ ہوگا

لمز یونیورسٹی کے  ایسوسی ایٹ پروفیسر   ڈاکٹر علی حسنین کا کہنا ہے کہ ’امریکا کی عالمی معیشت میں اپنی ایک پوزیشن ہے اور اس نے اس سے پہلے کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا اور اگر اب امریکا ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کے عالمی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے اس متعلق درست اندازہ لگانا مشکل ہے ْلیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس ڈیفالٹ کے نتیجے میں  شرح سود میں اضافہ ضرور ہوگا اور  اس کے نتیجے میں پاکستان پر بھی پریشر ہو گا کہ وہ بھی شرح سود میں اضافہ کرے۔ جس سے پاکستان کی معیشت مزید سست روی کا شکار ہو گی‘۔

کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ سے وابستہ پروفیسر شکوہ عاطف، ڈاکٹر علی حسنین کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’اگر امریکا ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کی کریڈٹ ریٹنگز متاثر ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ  پوری دنیا میں شرح سود بڑھ جائے گی اور اس کا پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو نقصان ہو گا۔ اگر قرضہ دینے والے ادارے اور ممالک اپنی شرح سود میں اضافہ کر دیں گے تو ہمارے جیسے ملکوں کے لیے بھی دنیا سے اپنے لیے فنڈز اکٹھے کرنا مزید  مشکل ہو جائے گا‘۔

امریکا ڈیفالٹ ہوا تو پاکستان کا کیا ہوگا؟

امریکا پاکستان کے سب سے بڑے ٹریڈنگ پارٹنر میں سے ایک ہے اور سال 2022ء میں  پاکستان نے امریکا کو  تقریباً 6 بلین ڈالرز کی برآمدات کی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکا ڈیفالٹ کرتا ہے تو پاکستان اور امریکا کے تجارتی تعلقات پر کس طرح کا اثر پڑے گا اور کیا پاکستانی برآمدات بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہو گا؟

پاکستان کو نئی مارکیٹس کی ضرورت

ڈاکٹر علی حسنین سمجھتے ہیں کہ ڈیفالٹ کے نتیجے میں عالمی تجارت پر ضرور اثر پڑے گا اور اس کا حجم کم ہوگا، لیکن ان کے خیال میں پاکستان پر اس کا اثر بہت زیادہ ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

قرضے کی حد کو بڑھانے کو معاملے پر امریکا صدر جو بائیڈن 9 مئی کو ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کرنے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر علی حسنین کے مطابق ’پاکستانی معیشت کیونکہ بہت زیادہ اوپن نہیں ہے اس لیے بیرونی میکرو اکنامک شاکس سے ان معیشتوں کے مقابلے میں جو بہت زیادہ اوپن ہوتی ہیں،  کسی حد تک کم متاثر ہوتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسی لیے اس وقت پوری دنیا میں جو اقتصادی بحران چل رہا ہے اس کا پاکستان کی برآمدات اور درآمدات پر کوئی بہت زیادہ اثر نہیں پڑا، لیکن پھر بھی پاکستان کو اپنی برآمدات اور درآمدات کے لیے نئی مارکیٹس کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے‘۔

پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کا امکان

اس سوال پر کہ ’کیا ڈیفالٹ سے امریکی ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے کے بھی امکانات ہیں؟‘ پروفیسر شکوہ عاطف کا کہنا تھا کہ ’اگر امریکا ڈیفالٹ کرتا ہے تو امریکی ڈالر کی اجارہ داری پر ضرور کہیں نا کہیں اثر پڑے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر امریکا ڈیفالٹ کر گیا تو امریکی ڈالر کی طاقت میں بھی کمی آئے گی اور میرے خیال میں پاکستان کو اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ پاکستان روپے کی حالیہ گراوٹ نا صرف رکنے کے امکانات ہوں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ بھی ہو۔ اور ہو سکتا ہے ڈالر کہیں 250 روپے کے آس پاس ٹریڈ کرے‘۔

پروفیسر شکوہ عاطف کے مطابق ’کوئی اور کرنسی عالمی تجارت میں ڈالر کی جگہ لے لے گی تو اس کا انحصار معاشی سے زیادہ عالمی سیاسی عوامل پر ہے‘۔

عالمی سطح پر ڈالر کی ساکھ کو دھچکا

ڈاکٹر علی حسنین پروفیسر شکوہ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر ڈالر کی ساکھ کو دھچکا ضرور لگے گا۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فی الحال ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

امریکی وزیر خزانہ جینیٹ یلین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے تو امریکا ایک ماہ کے دوران ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

عالمی تجارت میں دیگر کرنسیوں کا استعمال بڑھ جائے گا

ان کے مطابق ’ڈیفالٹ سے امریکی ڈالر کی ساکھ کو تو ضرور دھچکا لگے گا لیکن اس وقت ڈالر کے علاؤہ کوئی ایسی کرنسی بھی نہیں ہے جس میں اتنے بڑے پیمانے پر تجارت ہو رہی ہو۔ تو ڈیفالٹ کی وجہ سے ہو سکتا ہے عالمی تجارت میں دوسری کرنسیوں کا استعمال بڑھ جائے لیکن اس سے ایسا بھی نہیں ہو گا کہ ڈالر  کی اجارہ داری پر کوئی بہت زیادہ اثر پڑے‘۔

کیا قرضوں کی حد کو بڑھانے پر اتفاق ہو جائے گا؟

ایسا نہیں ہے کہ امریکا میں قرضوں کی حد کوئی پہلی دفعہ بڑھائی جائے گی جس وجہ سے صدر بائیڈن اور ریپبلیکنز آمنے سامنے ہیں، پچھلے 63 سالوں میں 78 دفعہ قرضوں کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ 9 مئی کو صدر جوبائیڈن اور ریپبلیکنز رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ کیا قرضوں کی حد کو بڑھانے پر اتفاق ہو جائے گا یا پوری دنیا کو ایک اور معاشی بحران کا سامنا ہو گا؟ بس تھوڑا انتظار اور

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp