پشاور سے بیس میل دور چار سدہ ایک مشہور و معروف گاؤں ہے، اس سے دو میل آگے ایک چھوٹا سا مگر اہم موضع ’اتمان زئی‘ ہے۔ جو دریائے سوات کے کنارے واقع ہے۔ اس چھوٹے سے موضع کا صوبہ سرحد کی تاریخ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
سیف اللہ خان
’اتمان زئی‘ کے ایک بہت بڑے خان اور زمیندار خان بہرام خان تھے۔ بہرام خان کو خودداری اور حریت پروری ورثہ میں ملی تھی۔ بہرام خان کے والد سیف اللہ خان نے انگریزوں کے خلاف اس موقع پر زبردست مزاحمت کی تھی جب وہ علاقے کے دیگر خوانین کی مدد اور تعاون سے بونیر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ سیف اللہ خان بذات خود مورچہ بند ہوکر انگریزوں کے خلاف لڑے۔ دیگر کئی موقعوں پر بھی وہ انگریزوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔
نامور بیٹے
سیف اللہ خان کے والد عبیداللہ خان بھی اپنی قوم پروری کے جرم کی پاداش میں درانیوں کے ہاتھوں تختہ دار کے سزاوار گردانے گئے تھے۔ خان بہرام خان کے دو بیٹوں نے سیاست میں نام کمایا۔ بڑے بیٹے کا نام خان عبدالجبار خان اور چھوٹے بیٹے کا نام خان عبدالغفار خان تھا۔ سیاسی دنیا میں خان عبدالجبار خان ڈاکٹر خان صاحب کے نام سے اور خان عبدالغفار خان باچاخان کے نام سے مشہور ہوئے۔
خان عبدالجبار خان
ڈاکٹر خان صاحب 1882ء میں پیدا ہوئے انہوں نے میٹرک کا امتحان پشاور سے پاس کرنے کے بعد انگلستان کا رخ کیا جہاں انہوں نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپس آنے کے بعد وہ آرمی میڈیکل کور میں بھرتی ہوگئے اور ریٹائر ہونے کے بعد وہ قصہ خوانی بازار پشاور میں مطب کرنے لگے۔
انگریز بیوی اور کلب کی رکنیت
پشاور میں ان کی پریکٹس بہت اچھی چلتی تھی۔ ان کی شادی ایک انگریز عورت سے ہوئی تھی اور انگریزوں سے ان کے تعلقات بہت دوستانہ تھے۔ یہاں تک کہ انہیں پشاور کلب کا، جس کا رکن بننے کی عام ہندوستانیوں کو اجازت نہ تھی، رکن بننے کی بھی اجازت دے دی گئی تھی۔
خدای خدمت گار تحریک
1930ء میں جب انگریزوں نے خدائی خدمت گار تحریک کو، جس کی قیادت ڈاکٹر خان صاحب کے چھوٹے بھائی، خان عبدالغفار خان کے ہاتھ میں تھی، کچلنے کے لیے سرخ پوشوں کا قتل عام کیا، تو ڈاکٹر خان صاحب اس صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔
پہلی مرتبہ پابند سلاسل
1931ء میں ڈاکٹر خان صاحب سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں پہلی مرتبہ پابند سلاسل ہوئے۔ 1934ء میں رہا ہوئے تو حکومت نے صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب میں ان کے داخلہ پر پابندی عائد کردی۔
سرحد میں سرخ پوشوں کی وزارت
1937ء کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد گورنر سرحد نے صاحبزادہ عبدالقیوم کو صوبہ کا وزیراعلیٰ بنا دیا مگر جلد ہی عدم اعتماد کی ایک تحریک کے ذریعہ ان کی وزارت کا خاتمہ ہوگیا اور یوں صوبہ سرحد میں پہلی مرتبہ سرخ پوشوں کی وزارت قائم ہوئی۔ صاحبزادہ عبدالقیوم اس صدمے سے جانبر نہ ہوسکے اور3 دسمبر 1937ء کو انتقال کر گئے۔
انگریزوں کی جنگی پالیسی کیخلاف ردعمل
1939ء میں انگریزوں کی جنگی پالیسی کے خلاف جب ہندوستان کی 8 صوبوں کے وزارتوں نے بطور احتجاج استعفیٰ دیا تو ان میں صوبہ سرحد کی ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت بھی شامل تھی۔
خدائی خدمت گاروں کی حکومت
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد صوبہ سرحد میں ایک مرتبہ پھر خدائی خدمت گار تحریک کی وزارت قائم ہوئی اور ڈاکٹر خان صاحب ایک مرتبہ پھر صوبہ کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
ریفرنڈم کا بائیکاٹ
قیام پاکستان سے کچھ پہلے صوبہ سرحد میں پاکستان میں شمولیت اور عدم شمولیت کے سوال پر ایک ریفرنڈم منعقد ہوا۔ خدائی خدمت گار تحریک نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا یوں یہ ریفرنڈم مسلم لیگ نے بآسانی جیت لیا اور صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہوگیا۔
قائداعظم نے وزرات برطرف کر دی
قیام پاکستان کے وقت ڈاکٹر خان صاحب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے۔ مگر فقط 8 دن بعد 22 اگست 1947ء کو قائداعظم نے ان کی وزارت برطرف کر دی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے14 اگست 1947ء کو پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی تقریب میں شرکت نہ کرکے ملک سے عدم وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گورنر سرحد کے منع کرنے پر تقریب میں شرکت نہ کی تھی۔
نظر بندی سے کابینہ تک
اس کے بعد ڈاکٹر خان صاحب عرصہ دراز تک ہزارہ میں نظر بند رہے۔ 1953ء میں جب محمد علی بوگرا ملک کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر خان صاحب کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔
نئے دور کا آغاز
یہاں سے ڈاکٹر صاحب کی سیاسی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 1954ء کے اواخر اور 1955ء کے اوائل میں پاکستان کے مغربی صوبائی یونٹوں کے اتحاد کی جانب بڑی تیزی سے قدم اٹھایا گیا اور مارچ 1955ء میں گورنر جنرل نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ نہ صرف ون یونٹ کے قیام کا اعلان کر دیا بلکہ 5 اپریل 1955ء کو مشتاق احمد گورمانی کو اس نئے صوبہ کا گورنر اور ڈاکٹر خان صاحب کو اس نئے صوبے کا وزیراعلیٰ بھی نامزد کردیا۔
بلوچستان کی نشست
ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان اسمبلی میں بلوچستان کی اکلوتی نشست پر نامزد ہوئے تھے بلوچستان کے رہنماؤں نے اس بات پر بہت احتجاج کیا اور یہ نشست بلوچستان کے کسی باشندے کو دیے جانے پر اصرار کیا، مگر ڈاکٹر خان صاحب نے ایک نہ سنی اور اسی نشست پر براجمان رہے۔
14 اکتوبر 1955ء کو مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ختم کرکے ایک صوبہ بنا دیا گیا اور گورمانی اور ڈاکٹر خان صاحب نے اپنے اپنے عہدے سنبھال لیے۔
لیگیوں میں اضطراب کی لہر
مغربی پاکستان کی وزارت اعلیٰ پر ڈاکٹر خان صاحب کی تقرری سے مسلم لیگیوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ وہ ڈاکٹر خان صاحب کو مسلم لیگ کا مخالف اور اپنا کٹر حریف سمجھتے تھے۔ اسی دوران ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ قائداعظم کے دیرینہ ساتھی سردار عبدالرب نشتر کو اتفاق رائے سے مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا۔
سردار عبدالرب نشتر کی ہدایت
اس سے پہلے مغربی پاکستان کی نئی اسمبلی کا انتخاب ہوچکا تھا۔ یہ انتخاب اگرچہ غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے مگر انتخاب کا طریقہ کار کچھ ایسا تھا کہ وہی لوگ بھاری اکثریت میں منتخب ہوئے تھے جو شروع میں اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوچکے تھے، چنانچہ سردار عبدالرب نشتر نے اپنے انتخاب سے اگلے ہی دن یہ ہدایت جاری کر دی کہ مغربی پاکستان کی نئی اسمبلی کے جو ارکان، مسلم لیگ سے وابستہ ہیں وہ جلد از جلد اسمبلی کے اندر خود کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کر لیں۔
پریشان کن سوال
یہ ہدایت اپنے ساتھ بعض لازمی نتائج لائی تھی۔ صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی قائم ہوگی تو لازماً اس پارٹی کا لیڈر بھی ہوگا اور اگر مسلم لیگ پارٹی کی اکثریت ہوئی، جیساکہ صاف نظر آتا تھا تو وزارت سازی کا حق عام پارلیمانی آداب کے مطابق اسی پارٹی کے لیڈر کو حاصل ہوگا۔ پھر ڈاکٹر خان صاحب کی پوزیشن کیا ہوگی؟ یہ سوال نہ صرف چودھری محمد علی کے لیے بلکہ گورنر جنرل اسکندر مرزا کے لیے بھی بڑا پریشان کن تھا۔ جو ہر حال میں وزیراعلیٰ کے عہدے پر ڈاکٹر خان صاحب ہی کو براجمان دیکھنا چاہتے تھے۔
چوہدری محمد علی کی مفاہمتی کوشش
اس صورت حال میں چوہدری محمد علی نے مفاہمت کی غرض سے یہ پروگرام بنایا کہ ڈاکٹر خان صاحب اپنی کوئی پارٹی نہ بنائیں مسلم لیگ ان کی شخصی افادیت کے پیش نظر انہیں وزیراعلیٰ کے طور پر قبول کرلے اور ڈاکٹر خان صاحب اپنی وزارت مسلم لیگ پارٹی کے لیڈر کے مشورے کے مطابق بنائیں۔ یعنی برائے نام وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب ہوں اور اصل وزیراعلیٰ مسلم لیگ پارٹی کا لیڈر ہو۔
اسمبلی توڑنے کی دھمکی
چودھری محمد علی نے اسی پروگرام کی بنیاد پر سرکردہ مسلم لیگی رہنماؤں سے گفت و شنید کا آغاز کیا۔ مگر گورنر جنرل اسکندر مرزا کا ذہن بالکل مختلف سمت میں کام کررہا تھا۔ وہ ڈاکٹر خان صاحب کو پوری سیاسی قوت اور اثر و رسوخ کا حامل وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ لامحالہ ڈاکٹر خان صاحب بھی یہی کچھ چاہتے تھے۔ وہ اس بنیادی حقیقت کو بالکل فراموش کررہے تھے کہ وہ صرف ایک نگراں وزارت کے سربراہ تھے۔ چنانچہ جب ایک پریس کانفرنس میں ڈاکٹر خان صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ اگر نئی اسمبلی کی اکثریت نے میرا ساتھ نہ دیا تو مجھے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے یہ حق حاصل ہے کہ میں گورنر کو اس اسمبلی کو توڑ دینے کا مشورہ دوں تو لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔
سردار بہادر خان پر اتفاق
ان حالات میں 2 اپریل 1956ء کو لاہور میں مغربی پاکستان اسمبلی کی مسلم لیگ پارٹی کا اجلاس شروع ہوا۔ اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 310 تھی۔ جن میں سے 245 ارکان نے مسلم لیگ کے حلف نامے پر دستخط کیے اور227 افراد پارٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اگلے دن خفیہ رائے شماری کے ذریعہ مسلم لیگ ارکان کی ا کثریت نے فیصلہ سنادیا کہ پارٹی کو کسی ایسے وزیر اعلیٰ کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو مسلم لیگی نہ ہو۔ اس کے بعد پارٹی نے اتفاق رائے سے سردار بہادر خان کو (جو ملک کی بری فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خان کے بڑے بھائی تھے) اپنا لیڈر منتخب کرلیا۔
ری پبلکن پارٹی کا قیام
ادھر یہ فیصلے ہوئے ادھر مسلم لیگ پارٹی کے وہ ارکان جو کسی نہ کسی وجہ سے ڈاکٹر خان صاحب کو وزیر اعلیٰ بنانے کے حامی تھے، راتوں رات ڈاکٹر خان صاحب کے گرد جمع ہو کر انہیں ایک نئی پارٹی بنانے کی ترغیب دینے لگے۔
ڈاکٹر خان صاحب تو ہر حالت میں وزارت اعلیٰ سے چمٹے رہنا چاہتے تھے، چنانچہ انہوں نے گورمانی کی تجویز اور اسکندر مرزا کی تائید پر 23 اپریل 1956ء ایک نئی پارٹی کی داغ بیل ڈال دی جس کا نام ری پبلکن پارٹی رکھا گیا۔
گورنر کی عجب منطق
اب صورت حال یہ تھی کہ عبوری نگراں وزارت کی میعاد ختم ہوچکی تھی۔ نئے انتخابات کے ذریعہ جو اسمبلی وجود میں آئی تھی اس میں ایک پارٹی نے اپنی بھاری اکثریت کا عملی ثبوت فراہم کردیا تھا۔ وزیر اعظم خود ایک اخباری بیان میں یہ تسلیم کر چکے تھے کہ مسلم لیگ پارٹی کو ایوان میں قطعی اکثریت حاصل ہے۔
227 ارکان متفقہ طور پر سردار بہادر خان کو اپنا لیڈر چن چکے تھے اور سردار بہادر خان گورنر کو ایک چٹھی کے ذریعہ اس صورت حال سے مطلع کر چکے تھے اور خود کو ایک ممکنہ وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کر چکے تھے، لیکن گورنر (مشتاق احمد گورمانی) آئینی پوزیشن کی یہ عجیب تاویل پیش کررہے تھے کہ ڈاکٹر خان صاحب چونکہ وزیر اعلیٰ ہیں (حالانکہ وہ محض عارضی نگراں وزارت کے وزیراعلیٰ تھے) لہٰذا جب تک نئی اسمبلی میں انہیں شکست نہ ہو گورنر ان کا ہر مشورہ ماننے کا پابند ہے۔
مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی کو باہمی زور آزمائی
مسلم لیگ کے ارکان اس صورت حال سے نمٹے کے لیے اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا چاہتے تھے مگر گورنر کوئی ایک ماہ تک لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ اس دوران جب ری پبلکن پارٹی نے ہر قسم کے حربے استعمال کرکے اپنی طاقت مستحکم کرلی تو مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی کو باہمی زور آزمائی کا موقع مہیا کرنے کے لیے 19 مئی 1956ء کو مغربی پاکستان کا پہلا اجلاس طلب کر لیا گیا ۔یہ اجلاس جس کشیدہ فضا میں منعقد ہوا۔ وہ محتاج بیان نہیں۔ پہلا معرکہ نئی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب پر ہوا۔ اسپیکر کے انتخاب تک اسمبلی کی صدارت کرنے کے لیے گورنر گورمانی نے ریاست خیر پور کے ممتاز حسن قزلباش کو صدر نامزد کر دیا۔
ووٹوں کی جنگ
19 مئی کا دن ممبروں سے حلف لینے میں گزر گیا، ووٹوں کی جنگ اس سے اگلے دن ہوئی۔ مسلم لیگ پارٹی نے میر غلام علی تالپور کو اور ری پبلکن پارٹی نے چوہدری فضل الٰہی کو اپنا امیدوار نامزد کردیا تھا۔ رائے شماری کے وقت ممبروں کے درمیان کھینچا تانی اور ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ مسلم لیگی ممبران چیخ پکار کرتے رہے لیکن صدر نے یہ فیصلہ دے دیا کہ دونوں طرف کے ووٹ برابر ہیں اور پھر اپنا کاسٹنگ ووٹ ری پبلکن امیدوار کے حق میں دے کر اسے کامیاب کرادیا۔
جی ایم سید کی قلابازی
ڈاکٹر خان صاحب یہ معرکہ تو جیتنے میں کامیاب ہوگئے مگر چند ماہ کے اندر اندر جب مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت قائم ہوگئی اور مرکز میں ری پبلکن عوامی لیگ اشتراک سے سہروردی وزیراعظم بن گئے تو ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت ایک مرتبہ پھر ڈولنے لگی۔ جی ایم سید جو اسپیکر کے انتخاب کے وقت ری پبلکن پارٹی کے ساتھ تھے، اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مسلم لیگ سے جا ملے۔ یہاں تک کہ 20 مارچ 1957ء کو سردار بہادر خان نے ری پبلکن وزارت کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے باقاعدہ چیلنج دے دیا۔
گورنر راج
ڈاکٹر خان صاحب کو عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ گورنر سے اسمبلی توڑنے کے لیے کہیں۔ مگر اسکندر مرزا اسمبلی کے نئے انتخابات سے بہت گھبراتے تھے۔ چنانچہ ایک درمیانہ راستہ نکالا گیا اور 21 مارچ 1957ء کو دو ماہ کے لیے اسمبلی اور ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت کو معطل کرکے صوبے میں گورنر ر اج قائم کر دیا گیا۔
ڈاکٹر خان کا قتل
ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کی وزارت اعلیٰ سے برطرفی کے بعد بھی سیاست میں متحرک رہے اور اگلے ہی مہینے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ تقریباً ایک برس بعد 9 مئی 1958ء کو عطا محمد نامی ایک سابقہ پٹواری نے انہیں لاہور میں قتل کردیا اور یوں ڈاکٹر خان صاحب کے ہنگامہ خیز سیاسی کیریئر کا المناک خاتمہ ہوگیا۔