پاکستان اسٹیٹ بینک (SBP) کے گورنر جمیل احمد نے اعلان کیا ہے کہ مرکزی بینک ڈیجیٹل کرنسی کی پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کے قریب ہے اور وہ ورچوئل اثاثوں کے لیے نئی قانون سازی کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد پاکستان کے مالیاتی نظام کو جدید بنانا ہے اور کرپٹو کرنسی کے شعبے کو ریگولیٹ کرنا ہے۔
دنیا بھر میں مرکزی بینک ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال پر غور کر رہے ہیں، اور پاکستان کا یہ قدم چین، بھارت، نائجیریا اور کچھ خلیجی ممالک کے تجربات کے بعد اُٹھایا گیا ہے، جہاں محدود پائلٹ پروگراموں کے ذریعے ڈیجیٹل کرنسی کی جانچ کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے کیا پاکستان کرپٹو کرنسی میں واقعی بھارت کے مقابلے میں آگے نکل گیا ہے؟
سنگاپور میں ریوٹرز نیکسٹ ایشیا سمٹ میں گفتگو کرتے ہوئے جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان اس وقت ’مرکزی بینک ڈیجیٹل کرنسی‘ پر اپنی صلاحیت بڑھا رہا ہے اور جلد ہی ایک پائلٹ منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک نیا قانون ’ورچوئل اثاثوں کے شعبے کی لائسنسنگ اور ریگولیشن‘ کے لیے بنیاد فراہم کرے گا اور اس کے لیے اسٹیٹ بینک ٹیکنالوجی کے کچھ شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان کرپٹو کونسل نے بھی مئی میں واضح کیا تھا کہ ورچوئل اثاثے غیر قانونی نہیں ہیں، تاہم مالی اداروں کو اس وقت تک ان سے متعلق کوئی لین دین کرنے سے روکا گیا جب تک ایک باقاعدہ لائسنسنگ فریم ورک مکمل نہیں ہو جاتا۔
یہ بھی پڑھیے فیکٹ چیک: کیا حکومت روایتی کرنسی کو ختم کرکے ڈیجیٹل کرنسی لارہی ہے؟
اںہون نے کہا کہ حکومت نے ’ورچوئل اثاثے ایکٹ، 2025‘ کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت ایک آزاد ریگولیٹر قائم کیا جائے گا جو کرپٹو سیکٹر کی نگرانی اور لائسنسنگ کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کرپٹو مارکیٹ میں اپنے کردار کو مضبوط کرنے کے لیے بین الاقوامی کرپٹو شخصیات اور کمپنیوں سے تعاون بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کا یہ اقدام ایک طرف جہاں کرپٹو کرنسی کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے کا اشارہ دیتا ہے، وہیں یہ ملک کے مالیاتی نظام میں جدیدیت لانے کی ایک اہم کوشش بھی ہے۔