سعودی بار بار پاکستان کی مدد کو کیوں آجاتے ہیں؟

پیر 8 مئی 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’سعودی وزیرِ دفاع کا پاکستان کا دورہ پریشان کن ہے‘، یہ کہنا تھا کلنٹن انتظامیہ کے عہدیدار کا۔ اس نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا۔ سعودی وزیرِ دفاع شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز آل سعود 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد اسلام آباد پہنچے تھے۔ امریکیوں کو تب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ طاقتور سعودی وزیر اسلام آباد کیوں گئے ہیں۔

امریکا نے ان دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان پر پابندیاں لگا دی تھیں مگر اس وقت بھی سعودی عرب آگے آیا اور پاکستان کو ادھار پر تیل کی سہولت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ زرِمبادلہ کے ذخائر جو تیزی سے کم ہو رہے تھے ان کو مستحکم کرنے کے لیے بھی مدد فراہم کی۔

2005 میں زلزلہ آیا تو شاہ عبداللہ کے حکم پر پاکستان کی مدد کے لیے ایئر برج قائم کردیا گیا۔ 2010 کے سیلاب میں سعودی عرب ایک بار پھر پاکستان کی مدد کے لیے آگے تھا۔ پاکستان جب بھی کسی مشکل کا شکار ہوتا ہے، سعودیہ کی جانب دیکھتا ہے اور وہاں سے ہر بار مثبت جواب ملتا ہے۔

20 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ یہ ہر سال 4 ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم پاکستان بھیجتے ہیں۔ ڈاکٹر علی عواض العسیری اسلام آباد میں سعودی سفیر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے پاکستان نیم تربیت یافتہ افرادی قوت کے بجائے تربیت یافتہ افرادی قوت بڑھائے تو سعودی مارکیٹ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔

نوازشریف جب تیسری بار وزیرِاعظم بنے تو سعودی حکومت کی طرف سے ان کی حکومت کو ڈیڑھ ارب ڈالر بطور تحفہ دیے گئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آئی تو خراب معاشی حالات دیکھتے ہوئے سعودی عرب نے 6 ارب ڈالر کا ایک معاشی پیکج دیا جس میں ادھار تیل کی سہولت بھی شامل تھی۔ یہ معاشی پیکج پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے فراہم کیا گیا تھا۔ آج کل ہم وہی آئی ایم ایف پروگرام بحال کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سعودی عرب نے پھر آئی ایم ایف کو ہمارے لیے درکار فائنانشل گارنٹی فراہم کی ہے۔

1983 میں جنرل ضیا کی حکومت تھی جب پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی تعاون کا معاہدہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاک سعودی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانا شروع کیا تھا۔ پاکستان میں جو بھی حکومت آئی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ 1940 میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔ اس کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا تھا۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ان کا پرتپاک استقبال اور میزبانی کی تھی۔

سعودی عرب اور پاکستان کے گہرے اسٹریٹجک دفاعی، معاشی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ دونوں ملک مشکل مراحل پر ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب سعودیہ کے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے تب سعودی خواہش پر پاکستان نے سعودی چین روابط کرائے تھے۔ کامیاب سفارتکاری کے نتیجے میں سعودی عرب نے چینی بلاسٹک میزائل حاصل کیے تھے۔ رونالڈ ریگن امریکی صدر تھے اور اس پوری صورتحال میں اس وقت ایک سفارتی بحران بھی پیدا ہوا تھا۔

سعودی عرب نے 1988 میں یہ میزائل حاصل کرنے کے بعد 2014 میں محض ایک ہی بار ان کی نمائش کی تھی۔ اس وقت جنرل راحیل شریف پاکستان کے آرمی چیف تھے اور وہ اس تقریب میں موجود تھے۔ پاک سعودی تعلقات ہر مشکل میں ساتھ دیتے آئے ہیں اور یہ اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں جتنے دکھائی دیتے ہیں۔

سعودی عرب اپنی معیشت کا ماڈل تیل سے ہٹاکر اس میں جدت اور تنوع لا رہا ہے۔ اس نئے معاشی ماڈل میں سرمایہ کاری پر زور ہے۔ سعودی چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ اس کے لیے شراکت داری اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر سعودی مدد شامل رہے اور دونوں ملک اکٹھے ترقی کریں۔

سعودی ولی عہد نے جب 2019 میں پاکستان کا دورہ کیا تو 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کیا۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس اعلان کردہ سرمایہ کاری کو حاصل کرنے کے لیے رکاوٹیں دُور کریں۔

ہمیں اپنے معاشی ماڈل کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اپنی آمدن بڑھانا ہوگی۔ ایسے میگا پراجیکٹ تجویز کرنے ہوں گے جو منافع بخش ہوں۔ اس کے لیے سرمایہ کار دوست ماحول دینا ہوگا۔ سعودی تو تب سے ہماری مدد کو آرہے ہیں جب پاکستان ابھی قائم بھی نہیں ہوا تھا۔ جب دنیا ہمارے مخالف کھڑی ہوجاتی تھی سعودی تب بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہ سلسہ ایسے ہی چلے گا اور دنیا سوچتی رہے گی کہ سعودی بار بار پاکستان کی مدد کو کیوں آتے ہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp