خیبر پختونخوا کے شورش زدہ ضلع باجوڑ میں نامعلوم افراد نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما مولانا خان زیب کو جمعرات کے روز فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
ضلع باجوڑ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) وقاص رفیق نے بتایا کہ مولانا خان زیب کو شنڈئی موڑ کے مقام پر اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ 13 جولائی کو ہونے والے امن مارچ کی مہم چلا رہے تھے۔
حملے میں ایک پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہوا، جبکہ 3 افراد زخمی ہوئے۔ ڈی پی او کے مطابق یہ ایک ٹارگٹڈ حملہ تھا جسے موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے انجام دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیے: باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 4 دہشت گرد ہلاک
واقعے کے بعد باجوڑ میں حالات کشیدہ ہو گئے اور بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
مولانا خان زیب کون تھے؟
مولانا خان زیب باجوڑ کے ایک مذہبی رہنما تھے اور سیاسی طور پر قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے وابستہ تھے۔ اے این پی کے مرکزی ترجمان احسان اللہ خان کے مطابق مولانا خان زیب پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور مذہبی امور کی مرکزی کونسل کے سربراہ بھی تھے۔
ان کا تعلق باجوڑ کی تحصیل نواگئی سے تھا اور ان کا خاندان مذہبی رجحان رکھتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ڈی آئی خان میں بڑھتی بدامنی: وزیراعلیٰ کا ضلع نو گو ایریا بن گیا؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شاہد خان کے مطابق اگرچہ خان زیب ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن نظریاتی اور سیاسی طور پر وہ قوم پرست تھے اور ان کا پورا خاندان عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک تھا۔ وہ باجوڑ میں خاصی مقبولیت رکھتے تھے۔
شاہد خان نے بتایا کہ خان زیب سوشل میڈیا پر بھی سرگرم تھے اور ان کے فالوورز کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ ان سے متاثر تھا اور انہیں فالو کرتا تھا۔
تعلیم اور سیاست
خان زیب کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ میٹرک کے بعد انہوں نے دنیاوی تعلیم کو خیرباد کہہ کر دینی تعلیم کا آغاز کیا جس کے بعد وہ سیاست میں سرگرم ہو گئے۔
شاہد خان کے مطابق خان زیب سے پہلے ان کے بڑے بھائی سیاست میں سرگرم تھے اور فاٹا انضمام سے قبل کئی بار اے این پی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے چکے تھے۔
رہنما عوامی نیشنل پارٹی اور قبائلی پشتونوں کامضبوط،دانشور آواز مولانا خانزیب دہشتگردوں کے قاتلانہ حملے میں شہید ہوئے
وہ باجوڑ میں امن ولسی پاسون کیلئے کمپین کررہے تھے
مولانا خان زیب پختونخوا میں جاری دہشتگردی کیخلاف ایک توانا آواز تھے@MaulanaZeb #Bajaur#MaulanaKhanZaib pic.twitter.com/TyX0VVJ3Oy— Qasid Abbas Toori 🍁 (@QasidToori) July 10, 2025
مولانا خان زیب نے 2024 کے عام انتخابات میں این اے-8 سے اے این پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تاہم کامیاب نہ ہو سکے۔
’امن کے داعی تھے‘
اے این پی کے مرکزی ترجمان نے مولانا خان زیب کو ‘امن کا داعی’ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا خان زیب ہمیشہ امن کی بات کرتے تھے اور اپنی سرزمین پر امن کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
‘ان کا قصور بس اتنا تھا کہ وہ امن چاہتے تھے، اور یہ بات امن کے دشمنوں کو ہضم نہ ہوئی۔’
شاہد خان بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق مولانا خان زیب کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ دہشتگردی کے خلاف کھل کر بولتے تھے اور عملی طور پر امن کے لیے سرگرم رہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: باچا خان، سیاسی مزاحمت کا نایاب خزانہ۔۔!
13 جولائی کو باجوڑ میں قبائلی علاقوں میں بدامنی کے خلاف ایک بڑا امن جرگہ منعقد ہونا تھا، جس کی مہم میں مولانا خان زیب بھرپور طریقے سے شریک تھے۔
نوجوانوں میں مقبولیت اور علمی رجحان
شاہد خان نے بتایا کہ مولانا خان زیب طلبہ میں بھی خاصے مقبول تھے۔ وہ نوجوانوں کے ساتھ بیٹھتے، اسٹڈی سرکلز کرواتے اور علمی مباحثوں میں شریک ہوتے تاکہ نوجوان نسل کو شعور حاصل ہو۔
اگرچہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، لیکن علم حاصل کرنے کا شوق رکھتے تھے اور مطالعہ کرتے تھے۔ انہوں نے 2 کتابیں بھی تحریر کیں جو باجوڑ اور امن کے موضوعات پر مبنی ہیں۔
سوشل میڈیا اور مؤقف
مولانا خان زیب سوشل میڈیا پر بھی خاصے فعال تھے۔ وہ مختلف پوڈکاسٹس میں شرکت کرتے اور پختون سرزمین پر امن سے متعلق بات کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: ولی خان، برصغیر کی سیاست کا اہم ستون
ان کے کئی کلپس وائرل ہو رہے ہیں، جن میں وہ دہشتگردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دہشتگردی کو اس سرزمین پر باہر سے لایا گیا ہے، جس کی وجہ سے قابل، ہنر مند اور تعلیم یافتہ لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
وہ ایک سچے قوم پرست تھے، اور ہمیشہ پختون قوم اور پختون سرزمین پر امن کے قیام کا مطالبہ کرتے تھے۔
ایک ناقابلِ تلافی نقصان
اے این پی نے ان کی شہادت کو نہ صرف پارٹی بلکہ پوری پختون قوم کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے۔
ترجمان کے کے بقول، ‘ہم امن کے ایک سفیر سے محروم ہو گئے ہیں۔’
پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش جاری ہے اور تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔