لیاری کے علاقے بغدادی میں ایک عمارت کے گرنے کے معاملے میں پولیس نے 9 ملزمان کو گرفتار کر لیا جن میں ایس بی سی اے کے 5 ڈائریکٹرز، 2 ڈپٹی ڈائریکٹرز، ایک انسپیکٹر اور عمارت کے مالک شامل ہیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کتنے مقدمے ہیں؟ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایک مقدمہ ہے ، بلڈنگ گرنے کے بعد ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔
وکیل صفائی شہاب سرکی نے عدالت کو بتایا کہ کیس یہ ہے کہ بلڈنگ 1986 میں بنی، اس کا ریکارڈ ایس بی سی اے کے پاس ہے۔ ریکارڈ میں تمام چیزوں کا بتایا گیا ہے کہ یہ کام کس کا ہے۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ بلڈنگ کو پہلے ہی خطرناک قرار دیا جاچکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں لیاری عمارت حادثہ کی تحقیقات میں اہم پیشرفت، 8 افسران اور مالک گرفتار، مقدمہ قتلِ خطا کے تحت درج
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ اس بات کا تعین بھی کیا جائے کہ اس بلڈنگ کا نقشہ کس نے منظور کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کیس ڈاکیومنٹڈ ہے، لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کمپلیشن پلان کس نے دیا، ہمارا تو اس معاملے سے واسطہ نہیں۔ آپ لوگ مقدمہ کریں لیکن تفتیش تو ٹھیک کریں، لوگوں کو گرفتار کیا گیا، کچھ لوگوں کو حراست میں لے کر چھوڑ بھی دیا گیا۔
وکیل صفائی نے بتایا کہ مقدمے میں کسی بھی وزیر کو نامزد تک نہیں کیا گیا، ایس بی سی اے کو ریکارڈ نکالنے سے کون روک رہا ہے، ان لوگوں نے کوئی لاش ریکور کروانی ہے جو ریمانڈ مانگ رہے ہیں۔
’میرے موکل کی اس علاقے میں پوسٹنگ نہیں، پھر بھی نام ڈال دیا گیا۔ بلڈنگ مالک کی نواسی اور پوتی بھی واقعے میں جاں بحق ہوئی ہیں۔ مالک کو پتا ہوتا تو اپنے لوگوں کو اس بلڈنگ میں کیوں رکھتا۔ رحیم بخش کے نام پر کوئی ٹائٹل ڈاکومنٹس موجود نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں سانحہ لیاری: سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 14 افسران کو قصور وار قرار دے دیا گیا
وکیل کا موقف تھا کہ تمام دفعات قابل ضمانت ہیں، تفتیشی افسر کے پاس ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔
عدالت نے گرفتار 9 ملزمان کا 3 دن کا جسمانی ریمانڈ منطور کرلیا۔ ملزمان میں عمارت کا مالک اور ایس بی سی اے کے افسران بھی شامل ہیں۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر پولیس سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔