انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹیکٹس پاکستان کے صدر فواد سہیل عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ اِسلام آباد میں 600 فیصد درخت کاٹے جا چکے ہیں۔
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسلام آباد پاکستان کے شہروں میں ایک نسبتاً نیا اور منصوبہ بندی کے تحت بننے والا شہر ہے جس کو ایک معروف آرکیٹکٹ نے ڈیزائن کیا تھا، اور اِس شہر کے ڈیزائن کو ہر 25 سال بعد ریوائز ہونا تھا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ زون 4 اور زون 5 میں توسیع اور درختوں کی کٹائی ایسے نہیں ہونی تھی جیسے کہ ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
انہوں نے کہاکہ اسی طرح سے لاہور میں کینال کے ساتھ ییلو لائن ٹرین کا منصوبہ بھی ماحولیات کے لیے خطرناک ہے کیونکہ وہاں بھی درختوں کو کاٹنا پڑے گا جبکہ اُس کا متبادل دیا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ان چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹکٹس پاکستان نے اپنے گرین انیشی ایٹو کا آغاز اِسلام آباد سے کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اِس شہر میں وہ ساری چیزیں موجود تھیں جو باقی شہروں میں نہیں تھیں۔ جنگلات کی کٹائی روکنے کے لیے انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹیکٹس پاکستان سی ڈی اے، وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی اور تمام شہری اداروں کے ساتھ رابطے کررہا ہے اور اُن کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
کسی شہر کی توسیع کیسے ہونی چاہیے؟
فواد سہیل عباسی نے بتایا ہر شہر کی توسیع ہوتی ہے لیکن کسی بھی شہر کی توسیع کے لیے اُس کے شہریوں کو ساتھ شامل کرنا اُن کی رائے جاننا ضروری ہے۔ اس شہر میں آرکیٹیکٹس ہیں، ٹاؤن پلانرز ہیں، ماہر معیشت ہیں، ماحولیات کے ماہرین ہیں۔ اُن سے رائے معلوم کر کے اس شہر کی توسیع کی جانی چاہیے تھی۔ اس شہر کی ماحولیات پر بات کی جاتی اور دیکھا جاتا کہ توسیع کے اثرات کیا ہوں گے، لیکن کمروں میں بیٹھ کر یہ فیصلے کون کررہا ہے ہمیں معلوم نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم بلیو ایریا کی توسیع دیکھیں تو عمارتیں بن رہی ہیں لیکن پارکنگ کے لیے جگہ نہیں چھوڑی جا رہی۔
اسلام آباد میں جنگلات کی تباہی کا لیول کیا ہے؟
فواد سہیل عباسی نے بتایا کہ ہم نے پچھلے 15 سال کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اِسلام آباد سے 600 فیصد جنگلات کاٹے جا چُکے ہیں جو کہ بہت خطرناک اور بدقسمتی کی بات ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کررہی ہیں جیسا کہ ہم نے امریکی ریاست ٹیکساس میں دیکھا جس طرح وہاں سیلاب آیا۔ ویسے ہی ہم نے حال ہی میں سوات، شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں سیلاب دیکھے اور اِسلام آباد کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ پچھلے دنوں جو ژالہ باری ہوئی کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اِسلام آباد میں اس طرح کی ژالہ باری ہو سکتی ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹیکٹس پاکستان کا گرین اینشی ایٹو کیا ہے؟
انہوں نے کہاکہ انسٹیٹیوٹ آف آرکیٹیکٹس پاکستان کے گرین اینشی ایٹو میں سب سے پہلا نقطہ یہ ہے کہ شہر سے جنگلات کی کٹائی کو روکا جائے، شہر کے اربن پلان کو دیکھا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ اِس شہر کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس شہر میں ٹریفک انجینیئرنگ کی ضرورت ہے۔
’پہلے دیکھا جائے کہ کس چیز کی کہاں پر کتنی ضرورت ہے، جنگلات کی کٹائی کو روکا جائے اور نئے درخت لگائے جائیں۔ ہم حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ہم تمام حکومتی اور شہری اداروں سے اس سلسلے میں رابطے کر رہے ہیں۔‘
گرین انیشی ایٹو کا خیال کیسے آیا؟
فواد سہیل عباسی نے بتایا کہ میرے سمیت تمام آرکیٹیکٹس جو اِسلام آباد میں جنگلات کی کٹائی دیکھ دیکھ کر ہمارا ذہنی دباؤ بڑھ رہا تھا۔ ہم نے ایف نائن پارک کی گوگل میپنگ چیک کی تو پتا چلا کہ وہاں کے 70 فیصد درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ جب نائنتھ ایونیو کی ایکسٹینشن چل رہی تھی تو ہم نے دیکھا کہ یہاں پر سے کئی درخت غائب کیے جا چُکے ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ ملبری تھے اس لیے کاٹ دیے گئے ہیں۔
’ملبری کی دو اقسام ہیں، ایک وہ ہیں جو نقصان دہ نہیں ہیں اُن کو بچایا جا سکتا تھا، گوگل میپنگ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اِسلام آباد میں بہت بڑے پیمانے پر درخت کاٹے گئے ہیں۔‘
ترقی یافتہ دنیا میں شہر کیسے پھیلتے ہیں؟
فواد سہیل عباسی نے بتایا کہ ترقی یافتہ دنیا میں سرسبز قطعات کو پہلے ترجیح دی جاتی ہے اور اُس کے بعد شہری آبادیاں آتی ہیں، جہاں پر درخت ہوتے ہیں اُن کو بچا کر شہری آبادیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یا اُن درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے، اور اگر ایک درخت کاٹا جاتا ہے تو اُس کی جگہ دس بارہ نئے درخت لگائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر آپ سیکٹر جی ایٹ، یا ایف نائن تک اسلام آباد کو دیکھیں تو یہاں پر گرین ایریاز 50 فیصد رکھے گئے تھے، لیکن اس سے آگے کے سیکٹرز میں گرین ایریاز کہیں 10 اور کہیں 20 فیصد رہ جاتے ہیں، اگر آپ ای الیون کو دیکھیں وہاں تو گرین سپیسز کا تصوّر ہی نہیں ہے، گوگل سیٹلائٹ امیجنگ سے دیکھیں تو پہاڑوں پر جو درخت تھے وہ اب کہیں نظر ہی نہیں آ رہے۔
کثیرالمنزلہ ہائی رائز عمارتیں ماحولیات کو کیسے متاثر کرتی ہیں؟
فواد سہیل عباسی نے کہاکہ پوری دنیا میں اس وقت ہائی رائز عمارتوں میں عمارت کے مقابلے میں شیشے کا تناسب 30 فیصد کردیا گیا ہے۔ شیشہ ایک خاص قسم کا ہونا چاہیے اور اُسے سورج کے رُخ کے اعتبار سے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔ تیز رفتار تعمیراتی منصوبے پراجیکٹ کی لاگت میں 100 فیصد اضافہ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں زرعی جنگلات کے قیام کا فیصلہ، لاہور میں درختوں کے حفاظتی دائرے پر کام شروع
فواد سہیل عباسی نے اسلام آباد میں بننے والے دو نئے انڈر پاسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تیز رفتار تعمیراتی منصوبے لاگت میں 100 فیصد اضافہ کردیتے ہیں۔ ایک تو لاگت ویسے بڑھتی ہے دوسرا جب سے وہ انڈر پاسز بنے ہیں تب سے ٹھیک یا مرمت ہی کیا جارہا ہے، یہ کوئی اچھی مثال نہیں۔