پاکستان میں چینی کی قیمت ایک بار پھر عام صارف کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں چینی 200 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے، جبکہ پنجاب کے بعض علاقوں میں یہ قیمت اس حد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ قیمتوں میں اس تسلسل سے ہونے والا اضافہ نہ صرف عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ ملکی معاشی پالیسیوں پر بھی کئی سوالات اٹھا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس بحران کی بنیادی وجوہات میں حکومتی پالیسیوں کی عدم تسلسل، شوگر انڈسٹری میں موجود بااثر مافیا، اور منڈی کے غیر شفاف ڈھانچے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
قیمت میں بار بار اضافہ کیوں؟
ماہر معاشیات عابد سلہری کے مطابق، اگرچہ اشیائے خور ونوش میں عمومی طور پر اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے، مگر چینی ایک ایسی منفرد کموڈیٹی ہے جس میں ہر سال برآمد اور پھر درآمد کا چکر چلتا ہے۔ ان کے بقول اکثر اوقات شوگر ملز کے دباؤ پر حکومت چینی کی برآمد کی اجازت دیتی ہے، لیکن بعد میں جب ملک میں قلت پیدا ہوتی ہے تو اسی چینی کو مہنگے داموں دوبارہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ یہ طرزِ عمل گورننس کی ناکامی اور پالیسی سازی کی کمزوری کی واضح مثال ہے۔
مزید پڑھیں:حکومت کا چینی کی درآمد کا منصوبہ، ٹینڈر جمع کرانے کی آخری تاریخ 18 جولائی مقرر
عابد سلہری کا ماننا ہے کہ اس مسئلے کا دیرپا حل صرف ایک جامع اور مؤثر پالیسی میں مضمر ہے۔ ایسی پالیسی جس میں چینی کی پیداواری سطح سے لے کر اس کی ترسیل، فروخت اور برآمدات تک ہر مرحلہ شفافیت کے ساتھ ’ٹریک اینڈ ٹریس‘ نظام کے تحت منسلک ہو۔
اگر اس پورے سپلائی چین کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے تو نہ صرف چینی کی پیداوار، کھپت اور قلت کے اصل اعداد و شمار سامنے آ سکیں گے، بلکہ ایف بی آر اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ٹیکس نیٹ کو بھی وسعت دی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق جب کسی شے کی قیمت میں اضافے کی افواہ پھیلتی ہے تو مارکیٹ میں مصنوعی طلب پیدا ہو جاتی ہے۔ ریٹیلرز اور ذخیرہ اندوز بڑی مقدار میں خریداری کرکے چینی کو مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں عام صارف مہنگائی کی چکی میں پسنے لگتا ہے۔
سیاسی اثرات اور ذخیرہ اندوزی
معاشی ماہر راجا کامران اس بحران کو محض اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں چینی کے بڑے تاجر اکثر خود چینی کے صنعتکار بھی ہوتے ہیں، جو بینکوں سے قرض لے کر بڑے پیمانے پر چینی خرید کر ذخیرہ کرتے ہیں، اور سال بھر اس ذخیرے کو قسط وار مارکیٹ میں ریلیز کرتے ہیں تاکہ قیمتوں پر کنٹرول رکھا جا سکے۔
مزید پڑھیں:فوری منظوری کے اب ساڑھے 3 لاکھ ٹن چینی ڈیوٹی فری درآمد ہوگی
یہی وجہ ہے کہ چینی کی قیمت کا تعین صرف سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصولوں پر نہیں بلکہ سیاسی اثر و رسوخ سے ہوتا ہے۔ راجا کامران کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ چینی کی مارکیٹ کو چاول کی طرح ڈی ریگولیٹ کرے، یعنی حکومتی کنٹرول ختم کرکے مارکیٹ کو آزاد چھوڑ دے۔
وہ تجویز دیتے ہیں کہ چینی کو خوراک کی بنیادی ضروریات (Essential Food Item) کی فہرست سے نکال کر نان ایسنشل قرار دیا جائے، تاکہ حکومت کی مداخلت محدود ہو اور مارکیٹ اپنے اصولوں پر خود کو منظم کرسکے۔
ان کے مطابق چینی کا استعمال صرف گھریلو نہیں بلکہ صنعتی سطح پر بھی وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ مٹھائی، بیکری آئٹمز، مشروبات اور دیگر اشیاء کی تیاری میں۔ دنیا کے کئی ممالک اپنی صنعتوں کو خام چینی درآمد کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جسے وہ ریفائن کرکے برآمد کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
ہر سال ایک ہی بحران؟
معاشی تجزیہ کار اشفاق تولہ نے چینی اور گندم کی سپلائی و ڈیمانڈ میں بار بار پیدا ہونے والی رکاوٹوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دالیں، چاول، چنے اور دیگر اجناس میں ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوتی، تو چینی اور گندم ہی کیوں متاثر ہوتے ہیں؟
ان کے مطابق اگر حکومت ان دونوں شعبوں کو ڈی ریگولیٹ کر دے اور گنے کی کاشت سے لے کر چینی کی تیاری اور فراہمی تک کا ایک مربوط نگران نظام قائم کرے تو سال بہ سال یہ بحران دہرانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
مزید پڑھیں:وفاقی کابینہ کا 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ
اشفاق ٹولہ نے نشاندہی کی کہ چینی کا شعبہ بدقسمتی سے شدید سیاسی اثر و رسوخ کا شکار ہے، جس کی وجہ سے شفاف پالیسی سازی ممکن نہیں۔ جب تک اس صنعت کو سیاست سے الگ نہیں کیا جائے گا، چینی کی قیمتوں اور دستیابی کے مسائل برقرار رہیں گے۔
پالیسی، شفافیت اور نیک نیتی کی ضرورت
چینی صرف ایک شے نہیں بلکہ پاکستان کے معاشی نظام کی کمزور نبض بن چکی ہے، جو ہر کچھ عرصے بعد تیزی سے دھڑکنے لگتی ہے۔ جب تک حکومت پالیسی سازی میں شفافیت، مارکیٹ میں ڈیجیٹل نظم، اور سیاسی مفادات سے آزادی کا مظاہرہ نہیں کرے گی، چینی کے نرخ عوام کو اسی طرح تلخ ہوتے رہیں گے۔