ملکی معیشت پر بڑا بوجھ بننے والی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں سنہ 2014 سے کی جا رہی ہیں تاہم اب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے، حکومت نے جلد نجکاری کے لیے پی آئی اے قرض کا بوجھ کم کرنے کے لیے 80 فیصد سے زائد قرض ایک اور کمپنی کو منتقل کرتے ہوئے پی آئی اے سی ایل کے نام سے ایک الگ کمپنی بھی تشکیل دی۔
نجکاری کے لیے گزشتہ سال بولی کا انعقاد بھی ہوا تاہم صرف ایک کمپنی بلیو ورلڈ سٹیز نے اس میں حصہ لیتے ہوئے 85 ارب روپے کی بیس پرائس کے مقابلے میں 10 ارب روپے کی بولی دی، اتنی کم بولی کی وجہ سے نیلامی کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے بتایا کہ ہمارے ریجن کے دوست ممالک کی ایئر لائنز نے پی آئی اے کی خریداری میں اس لیے دلچسپی کا اظہار نہیں کیا کیونکہ پی آئی اے کے خسارے میں جانے سے ان کمپنیوں کو بہت فائدہ ہوا، ان کا بزنس بڑھ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری،اس بار کم سے کم بولی کیا ہوگی؟
’اگر پی آئی اے پھر سے ایک کامیاب ایئر لائن بن کر سامنے آتی ہے تو ان کا کاروبار انتہائی متاثر ہو گا، ایئر انڈیا کی نجکاری کے باعث ان کمپنیوں کا کاروبار بھی 30 فیصد متاثر ہوا تھا، ان کمپنیوں کا کاروبار اس لیے متاثر ہوتا ہے کیونکہ لوگ ڈائریکٹ فلائٹس پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ان کمپنیوں کی کنیکٹنگ فلائٹس ہوتی ہیں۔‘
اس صورتحال میں قومی ایئرلائن کی نجکاری کی دوسری مرتبہ کوشش کی جا رہی ہے، سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو آگاہ کیا کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والی 5 کمپنیوں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے بعد 4 کمپنیوں کو پہلے مرحلے میں ہی اہل قرار دے دیا ہے، ان کمپنیوں کو اب تحقیقی جانچ پڑتال کے مرحلے میں پی آئی اے کے حوالے سے تفصیلی بریفننگ دی جائے گی۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے بتایا کہ جن 4کنسورشیم کو پی آئی اے کی خریداری کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے، ان میں سے پہلے کنسورشیم میں لکی سیمنٹ لمیٹڈ، حب پاور ہولڈنگز لمیٹڈ، کوہاٹ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور میٹرو وینچرز لمیٹڈ شامل ہیں، دوسرے کنسورشیم میں عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، فاطمہ فرٹیلائئزر کمپنی، سٹی اسکولز لمیٹڈ اور لیک سٹی ہولڈنگز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: 3 سیمنٹ ساز ادارے بھی پی آئی اے کی خریداری کی دوڑ میں شامل
اس کے علاوہ فوجی فرٹیلائزر بطور ایک کمپنی اور ایئربلیو بلیو بطور ایک الگ کمپنی کو پی آئی اے کی خریداری کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے۔
عثمان باجوہ کے مطابق اب اگلے مرحلے میں ان 4 کمپنیوں کو کل تک ورچوئل ڈیٹا روم تک رسائی حاصل ہو جائے گی، اس پر جو پی آئی اے کا ڈیٹا اور انفارمیشن ہو گی اس پر ان کمپنیوں کے سوالوں کو جواب دیے جائیں گے، کمپنیوں کو پی آئی اے اثاثوں سمیت متعلقہ سائٹس کا دورہ کرایا جائے گا اور سیشنز منعقد ہوں گے، جس میں پی آئی اے کے انتظامی اور مالی معاملات کی بھی بریفننگ دی جائے گی۔
ان 4 کمپنیوں میں سے 3 کمپنیاں پہلے بھی نجکاری کے عمل میں حصہ لے چکی ہیں، جبکہ فوجی فرٹیلائزر نئی ہے، رواں سال کے آخری سہ ماہی تک امید ہے کہ بولی کا عمل مکمل ہو جائے گی، 2 کمپنیوں کو ماضی میں تفصیلی بریفننگ دی جا چکی ہے اور بقیہ 2 کو بریفننگ دی جائے گی، کوشش کی جائے گی کہ 60 دنوں میں ان کمپنیوں کے تمام سوالات کے جوابات دے دیے جائیں۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی صورت میں ملک کو مزید کتنا نقصان ہوگا؟
عثمان باجوہ کے مطابق اب جو کمپنیاں پی آئی اے کی نجکاری میں حصہ لے رہی ہیں، وہ کامیاب کاروباری پارٹیاں ہیں، پہلے مرحلے میں ہم نے ان کے اثاثوں کا جائزہ لیا ہے، یہ کمپنیاں پی آئی اے کو مالی طور پر بہت بہتر چلا سکتے ہیں۔
چیف آپریٹنگ آفیسر پی آئی اے ایئر وائس مارشل عامر حیات نے بتایا کہ پی آئی اے میں بڑی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، 8 جہازوں کے انجن تبدیل کیے ہیں، 2 بڑے جہاز 777 بہت جلد فلیٹ میں شامل ہو جائیں گے، 777 کے کارپٹ تبدیل کر دیے ہیں، انہی وجوہات سے ایئرلائن کا آپریٹنگ پرافٹ پہلی مرتبہ بڑھا ہے۔
’اس وقت 19 جہاز ایئر لائن فلیٹ شامل ہیں جن کو بڑھا کر 38 کرنا ہے، اس وقت 6،700 ملازمین ہیں جو کہ اس وقت تو زیادہ ہیں لیکن جب 38 جہاز ہو جائیں گے تو یہی ملازمین کم ہو جائیں گے، نجکاری کے بعد ملازمین کا تحفظ کیا جائے گا اور خریدار کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ملازمین کو پہلے سے بہتر حالت میں رکھیں گے۔‘