کسی بھی ملک کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے عمومی رجحان یہ نظر آتا ہے کہ اس میں اضافہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پارلیمنٹ میں تنقید نہ بھی ہو تو مین اسٹریم اور سوشل میڈیا میں اس پر لازماً گفتگو ہوتی ہے، ایسی دیگر مدات کے حوالے دیے جاتے ہیں جو تعمیری بھی ہوتے ہیں اور شہریوں کے لیے براہِ راست مفید بھی، لیکن ان مدات میں بہت ضروری اضافہ بھی نہیں کیا جاتا۔ یوں تو یہ دفاعی بجٹ کے حوالے سے پوری دنیا کا رجحان ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں اس طرح کے تنقیدی مباحث زیادہ شدت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک کا معاملہ البتہ یوں حیران کن ہے کہ اس کا محکمہ دفاع ہر سال مزید اضافے کے ساتھ جتنا دفاعی بجٹ مانگتا ہے، عوامی نمائندے اتنا فراہم نہیں کرتے۔
اگر آپ یہ خوش فہمی پالنے کی تیاری میں ہیں کہ صد شکر کہ اس دنیا میں کم از کم ایک ملک تو ایسا ہے جس کی وزارت دفاع کو اتنا دفاعی بجٹ فراہم نہیں کیا جاتا جتنا مانگا جاتا ہے، بلکہ اس پر بڑا کٹ لگا دیا جاتا ہے تو ایسا منحوس خیال دل سے باہر رکھیے۔ کیونکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس کچھ یوں ہے کہ امریکا کے عوامی نمائندے ہر سال پینٹاگون کے مطلوبہ بجٹ میں اپنی جانب سے مزید اضافہ کرکے منظور فرماتے ہیں۔ امریکی شہریوں کے لیے یہ کوئی انکشاف نہیں لیکن ہمارے لوگوں کے لیے یہ بات ناقابل یقین ہوسکتی ہے۔ سو ہم بطور مثال دو حوالے بھی پیش کر دیتے ہیں۔
سال 2018 میں پینٹاگون نے 677 ارب ڈالرز کا دفاعی بجٹ مانگا، لیکن کانگریس نے 700 ارب ڈالرز کی منظوری دی۔ یعنی کانگریس نے اپنی جانب سے اس میں 23 ارب ڈالرز کا اضافہ کیا۔ سال 2022 میں تو اس سے بھی بڑا لطیفہ ہوا۔ پینٹاگون نے مطالبہ کیا کہ اسے اگلے سال کے لئے 773 ارب ڈالرز دیے جائیں، کانگریس نے پہلے اس بنیادی بجٹ میں 9 ارب ڈالرز کا اضافہ کرکے 782 ارب کیا، اور پھر اپنی طرف سے کچھ مزید مدات تخلیق کرکے ان کے لیے مزید 58 ارب ڈالرز منظور کیے۔ یوں گویا پینٹاگون نے تو مانگے تھے 773 ارب ڈالرز مگر کانگریس نے منظوری دی 830 ارب ڈالرز کی۔
اب آپ کے ذہن میں دو سوالات تو یقیناً آرہے ہوں گے، پہلا یہ کہ کیا امریکی شہری اس پر کچھ کہتے نہیں؟ سوالات نہیں اٹھاتے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ چورن امریکی عوام کو ’حب الوطنی‘ کے انگریزی ورژن Patriotism کے نام سے بیچا جاتا ہے، اور یقین جانیے اس چورن کی خریداری میں امریکیوں سے زیادہ احمق قوم تاریخ نے نہیں دیکھی۔
دوسرا سوال آپ کے ذہن میں یہ آرہا ہوگا کہ آخر اراکین کانگریس ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کا مختصر جواب ہے ’منی لانڈرنگ‘ اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ امریکا کے عسکری ساز و سامان بنانے والے کارخانے سرکاری نہیں بلکہ وال اسٹریٹ کے بڑے سیٹھوں کے ہیں۔ امریکی حکومت ان کارخانوں کی صرف گاہک ہی نہیں، بلکہ ان کے لئے انٹرنیشنل گاہکوں کا بندوبست کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ اور اس کھیل میں کانگریس بھی پوری طرح شریک ہوتی ہے، امریکی جرنیل وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کے کارخانے چلائے رکھنے کے لیے ہر سال نت نئے ہتھیاروں کی فرمائش کرتے ہیں۔ حکومت اس کے مطابق دفاعی بجٹ بناتی ہے، اور کانگریس جرنیلوں کو انعام کے طور پر اس بجٹ میں بھی مزید اضافہ کرکے اس کی منظوری دیتی ہے۔
اگر آپ پاکستان کے اس دیسی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ماننا ہے کہ امانت، دیانت اور صداقت اب بس مغرب میں ہی رہ گئی ہے تو یقیناً یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امریکی جرنیل اس لیول کی بد دیانتی کرتے ہوں؟ کوئی پکڑتا نہیں کیا؟ دوسرے سوال کا جواب پہلے لے لیجیے، کون پکڑے گا؟ حکومت ناں؟ جب حکومت اور کانگریس ہی اس کھیل کا خود حصہ ہیں تو جرنیل کو کیا خطرہ؟ رہ گیا پہلا سوال کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امریکی جرنیل بددیانتی کرتے ہوں؟ تو دوباتیں جان لیجیے۔ پہلی یہ کہ من چاہی آڈٹ رپورٹ کیسے تیار ہوتی ہے یہ کوئی سربستہ راز نہیں، اور دوسری یہ کہ اب تو پینٹاگون من چاہی آڈٹ رپورٹ والا تکلف بھی نہیں برتتا۔ پچھلے سات آٹھ سال سے پینٹاگون آڈٹ میں فیل ہوا ہے، یہ فیلئر میڈیا میں باقاعدہ رپورٹ ہوئے ہیں اور کسی مائی کے گورے یا کالے لعل نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا، یعنی اب پینٹاگون کا آڈٹ میں فیل ہونا نیو نارمل ہے۔
اب آجائیے انٹرنیشنل گاہکوں والے پہلو کی جانب، یہ گاہک دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو امریکی حکومت سے رابطہ کرکے آگاہ کرتے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں ہتھیار درکار ہیں۔ اگر کوئی اعتراض نہ ہو تو حکومت اس کی منظوری دے دیتی ہے اور کارخانے مقررہ مدت میں ہتھیاروں کی سپلائی دے دیتے ہیں۔ یہ ہیں نارمل گاہک، سب سے مزے بلکہ عیاشی والے گاہک وہ ہوتے ہیں جن کے لیے خود امریکی حکومت ’دفاعی امداد‘ کی منظوری دیتی ہے۔ مثلاً امریکی حکومت نے منظوری دی کہ پاکستان کو 40 عدد ایف 16 بطور امداد فراہم کیے جائیں گے، ان طیاروں کی قیمت امریکی خزانے سے وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کو اور طیارے پاکستان کو ملیں گے، اور جب صدر مدت پوری کرکے گھر جائے گا تو کلنٹن فاؤنڈیشن جیسا ادارہ قائم کرکے اس کے اکاؤنٹ میں بھاری ’چندہ‘ وصول کرتا رہے گا۔ ہم نے تو بطور مثال صرف پاکستان کا نام لیا ہے، آپ ذرا بڑے پیمانے پر یہی اندازہ لگا لیجیے کہ صرف یوکرین کی جنگ میں کتنا امریکی اسلحہ بطور ’امداد‘ پہنچا ہے تو ایک منٹ میں سمجھ جائیں گے امریکا ہر وقت جنگیں لڑنے یا لڑوانے پر کیوں آمادہ رہتا ہے؟ اور اس کے بعد جب یہ پتا چلتا ہے کہ ایران کے خلاف اپنے 12 روزہ دفاع میں اسرائیل نے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کی ایک سال کی پیداوار پھونکی ہے، تو خود سوچیے بوئینگ، ریتھیان اور لاک ہیڈمارٹن کے مالکان کی لاٹری نکلی کہ نہیں؟
اب سوال یہ آجاتا ہے کہ کانگریس اور جرنیلوں کو صلہ کیسے ملتا ہے؟ اور وہ صلہ بطور رشوت نظروں سے کیسے بچ جاتا ہے؟ تو پہلی چیز تو یہ سمجھ لیجیے وال اسٹریٹ کے سیٹھ صرف اسلحہ ساز کارخانوں کے مالک نہیں، وہ ملٹری اور نان ملٹری ہر طرح کی صنعتوں کے مالک ہیں، اور جنگ میں جب امریکا شامل ہو تو کس نے کہاکہ میدان جنگ کو صرف اسلحے کی سپلائی جاتی ہے؟ ٹشو پیپر سے لے کر ڈائپر تک انسانی استعمال کی ہر چیز میدان جنگ پہنچ رہی ہوتی ہے، اور ان تمام اشیا کی فراہمی کے پرائیویٹ کنٹریکٹ ہوتے ہیں۔ صرف اشیا کی فراہمی کے ہی کنٹریکٹ نہیں ہوتے بلکہ ٹارگٹ ملک میں تعمیر نو جیسے مبہم نام پر اربوں کے ٹھیکے بھی پرائیویٹ امریکی کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں، اور یہ کمپنیاں پھر پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیاں ہائر کرتی ہیں جس سے بلیک واٹر جیسے اجرتی قاتلوں کے لیے راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے تمام ٹھیکے وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کو ملتے ہیں اور یہ دبا کر ’اووربلنگ‘ کرتے ہیں۔ مثلاً عراق جنگ میں ہیلی برٹن نامی کمپنی کے ذیلی ادارے کے بی آر نے 16 ارب ڈالر کے ٹھیکے حاصل کیے لیکن اس کی شفاف بلنگ صرف ڈھائی ارب ڈالر کی تھی۔ باقی سارا حساب فراڈ تھا، یہ وہی ہیلی برٹن ہے جس سے اس وقت کے نائب امریکی صدر ڈک چینی کا تعلق معلوم حقیقت ہے۔ یہی نہیں بلکہ براؤن یونیورسٹی کے ’کاسٹ آف وارپروجیکٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق صرف یو ایس ایڈ کے ٹھیکوں میں ہی 30 فیصد کرپشن ہوئی تھی جو کھربوں کا معاملہ تھا۔
نہایت قابل غور نکتہ یہ ہے کہ کرپشن کے اس بنے بنائے سسٹم سے ہٹ کر اگر کوئی ہاتھ کی صفائی دکھا کر ذاتی حیثیت پر خاص اپنے لیے رشوت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو سسٹم کو گویا موقع مل جاتا ہے ایسے شخص کو عبرت کی مثال بنانے کا اور یہ دکھانے کا کہ امریکا کرپشن کو بالکل برداشت نہیں کرتا۔ مثلاً عراق جنگ میں ہی امریکی فوج کے میجر جان کوکرہم نے کچھ ٹھیکوں کے عوض 30 ملین ڈالر کی رشوت لی تو اسے عبرت کی مثال بنا دیا گیا۔ اسی طرح 2003 کے ایک اور کیس میں بوئینگ نے پینٹاگون کی ایک خاتون آفسر Darleen Druyun سے اپنے حق میں رپورٹ بنوائی تو خاتون کو جیل جانا پڑا اور بوئینگ کے سی ای او کی چھٹی ہوگئی۔ ان کیسز سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ سسٹم سے باہر رہ کر ذاتی حیثیت میں کرپشن کی اجازت نہیں۔ مال کھانے کی صرف وہی اسکیم قابل قبول ہے جس میں سب کا حصہ ہو۔
اب آئیے اس سوال کی جانب کہ اراکین کانگریس اور جرنیل اپنا حصہ کیسے پاتے ہیں؟ وہ پاکستان تھوڑی ہے کہ فائل پر دستخط کیے اور اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کروا کر اس سوال کے آگے پھنس گئے کہ بھئی تمہارے اخراجات تمہاری آمدن سے مطابقت کیوں نہیں رکھتے؟ امریکہ میں ہوتا یہ ہے کہ وال اسٹریٹ کے سیٹھ سہولت کار جرنیلوں کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد اسلحہ ساز خارخانوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کردیتے ہیں جبکہ سیاستدان پیٹرولیم انڈسٹری سے لے کر فارماسیوٹیکل اور دیگر کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز میں لے لیے جاتے ہیں۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ جرنیل اور سیاستدان ان کمپنیوں میں کوئی عظیم خدمات انجام دیتے ہیں تو غلط سوچ رہے ہیں۔ ان کی بس انٹری کی جاتی ہے تاکہ انہیں ان خدمات کا صلہ ’ماہانہ بھاری تنخواہ‘ کی صورت ادا ہوسکے جو انہوں نے دوران سروس سیٹھوں کے لیے انجام دی تھیں۔ یوں رشوت تنخواہ اور مراعات کی صورت منی لانڈرنگ کا مرحلہ طے کر جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی میڈیا بھی تو وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کا ہے۔ سو بہت سے سیاستدان اور جرنیل وہاں بھی ’کنٹری بیوٹر‘ کے ٹائٹل کے ساتھ فٹ کردیے جاتے ہیں۔ جن کا کام بس اتنا ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک آدھ بار پانچ منٹ کے لیے چینل پر آن لائن حاضر ہوئے اور گراں قدر تجزیہ فراہم کردیا۔
امید ہے اب آپ کو سمجھ آچکا ہوگا کہ امریکا 37 کھرب ڈالرز کے قرضے تلے کیسے ڈوبا؟ اس کا خزانہ وہ دودھ ہے جس کے آس پاس بلیوں کے سوا کسی کو بھی قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں میں لوٹ مار کی ساری حدیں عبور کرلی گئیں، اور اس دوران سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے ہی سب سے زیادہ نظر انداز رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ خانہ خالی را دیو مے گیرد کے اصول کے مطابق آج دنیا کے ٹاپ ٹین ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سے 8 چائنا کے ہیں اور اور صرف ایک امریکا کا ہے۔ یوں ترقی کے سفر میں چائنا نئی بلندیاں سر کررہا ہے جبکہ امریکی زوال اتنا عیاں ہوچکا کہ اب تو نجم سیٹھی جیسے امریکی وفادار بھی اس کا کھل کر اعتراف کررہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔