موسم کی کہانی، بارش کی زبانی

منگل 15 جولائی 2025
author image

احمد کاشف سعید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

موسم کے کئی روپ ہیں، کبھی سردی تو کبھی گرمی، کبھی بادل ساتھ نبھائیں تو کبھی دھوپ اپنے رنگ دکھائے، کبھی بوندا باندی تو کبھی تیز بارش، ان کئی دلفریب رنگوں میں سے ہم نے انتخاب کیا ہے بارش کا قتیل شفائی نے کیا خوب کہا ہے۔

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

پہلے بادل آتے ہیں، گرجتے ہیں اور پھر برستے ہیں، ہر سو چھائے بادل اور بوندا باندی، قدرت کے یہ رنگ خوبصورت منظر بناتے ہیں، بادلوں کی گھن گرج، ٹھنڈی ہواؤں کا سرسرانا اور رم جھم، جب سب ملتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت نے کوئی دلفریب نغمہ چھیڑ دیا ہو۔

آسمان سے برستی بوندیں اور ٹھنڈی ہوائیں، لمحے میں موسم کے تیور بدل دیتی ہیں، پھول اور پودے سب ہی خوشی سے لہراتے ہیں، بارش سے لمحوں میں منظر بدلتے ہیں، سڑکیں دھل جاتی ہیں، عمارتیں ایک نیا روپ اختیار کرلیتی ہیں۔

رم جھم ہر کسی کے دل میں مختلف انداز میں دستک دیتی ہے، آسمان سے برستی بوندیں صرف موسم کا ایک رنگ نہیں بلکہ ایک خوبصورت احساس بھی ہے، یہ ہی نہیں، بھیگا بھیگا موسم یادوں کی کھڑکیاں بھی کھول دیتا ہے، خوبصورت موسم میں خوبصورت یادیں دستک دیتی ہیں، ماضی کے بادلوں میں چھپے دھندلے چہرے بھی اپنی جھلک دکھاتے ہیں، کبھی کبھی اپنے ساتھ اداسی بھی لاتے ہیں۔

منیر نیازی کا خوبصورت شعر بھی پڑھیے

گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں

چھتوں پر کھلے پھول برسات کے

بارش سے نٹ کھٹ لڑکیوں کا ایک منفرد ہی تعلق ہے، بارش ان کی آنکھوں میں حسین خواب سجاتی ہے، لڑکیوں کے انداز ہی بدل دیتی ہے، لڑکیاں شرارتیں کرتی ہیں، سکھیوں کے ساتھ خوب موج مستی ہوتی ہے۔

ہر انسان کی اپنے بچپن سے کئی یادیں جڑی ہوتی ہیں اور بارش بھی ان یادوں کا حصہ ہوتی ہے، بارش میں بچے صرف نہاتے ہی نہیں، خوب ہلاگلا کرتے ہیں، بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتی چلنے سے جو خوشی ملتی، اس دور میں بڑی سے بڑی خوشی سے بھی نہ ملتی۔

جگجیت سنگھ کی آواز میں یہ گیت تو آپ نے یقیناً سنا ہوگا، اسی میں سے ایک قطع پڑھیے

یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

شعرا کرام نے محبت کے علاوہ بارش پر بھی بہت لکھا، موسم کے اس خوبصورت رنگ کو اپنی شاعری کے کینوس کا ایسے حصہ بنایا کہ پڑھنے والے جب بھی پڑھتے ہیں، جھوم جاتے ہیں

عبد الحمید عدم کے اس خیال کو ہی دیکھ لیجیے

بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ
بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا

کئی اشعار میں تو بارش اور محبت کے خوبصورت امتزاج نے بھی دل کے تار چھیڑ دیے

ہم سب کے ہر دلعزیز ناصر کاظمی کے دل کو چھوتے اس شعر کا لطف اٹھایے

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئی

بارش اور تنہائی کا بھی ایک خوبصورت رشتہ ہے، ٹپ ٹپ کرتی بارش کی بوندیں آپ کی تنہائی کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بارش اور تنہائی آپ سے باتیں کر رہے ہوں اور یہ ایسی دنیا میں لے جائیں جہاں سے واپس آنے کا دل ہی نہ چاہے، بارش ہو تو چائے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، ساتھ میں سموسے اور دیگر لوازمات مل جائیں تو کیا ہی کہنے۔

بارش پر خوبصوت گیت، موسم کے رنگوں کو مزید حسین بنا دیتے ہیں، پاکستان فلم انڈسٹری کی بات کریں تو بارش پر سب سے پہلے مقبول ہونے والے گیت کے بول تھے۔

گھنگھور گھٹاؤں، ساون کی ترس گئے مورے نین پیابن
برس برس، مت مجھے رلاؤ، ساون کی گھنگھور گھٹاؤں

اپنے محبوب کو روکنے کے لیے بھی بارش سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے، احمد رشدی کے اس خوبصورت گیت کو ہی لے لیجیے
اے ابر کرم ، آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں

چند اور مقبول پاکستانی گیت

کیوں ہم سے خفا ہوگئے اے جان تمنا، بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

ساون آئے ساون جائے، تجھ کو پکاریں گیت ہمارے

رم جھم رم جھم پڑے پھوار، تیرا میرا نت کا پیار

آئے موسم رنگیلے سہانے، آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے تو چھٹی لے کے آجا بالما

اگر بادل نہ برسیں تو آج کل کئی ممالک میں مصنوعی بارش بھی کی جاتی ہے، اس عمل میں پہلے بادلوں کو کیمیکل کے ذریعے بھاری کیا جاتا ہے، خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعہ دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں پر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں، ان سے بادل بھاری ہوجاتے ہیں اور بارش برساتے ہیں، آج کل پاکستان سمیت دنیا کے پچاس سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔

یوں تو بارش کے نظارے نظروں کو خوب بھاتے ہیں مگر کچھ شہروں کی اس سے خوب بنتی ہے، اب اسلام آباد کو ہی دیکھ لیجیے، برکھا رت میں یہاں کے نظارے ہی بدل جاتے ہیں، بارش سے پہلے بادلوں کی مارگلہ کی پہاڑیوں سے اٹکھیلیاں اور اپنے انداز میں باتیں بھی دور سے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔

بارش تیز ہو تو مشکلات بھی ضرور ہوتی ہیں، جگہ جگہ جمع پانی اور بجلی کا آنا اور جانا، بارش ہو تو اکثر ان سب حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، دریا اور ندی نالوں میں طغیانی آتی ہے، سیلاب بھی نقصانات کا باعث بنتے ہیں، مختلف واقعات میں قیمتی جانیں بھی جاتی ہیں، اب جاذب قریشی کا یہ شعر بھی دیکھ لیجیے۔

کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو

یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر طویل عرصے تک بارش نہ ہو تو اس کے کئی نقصانات بھی ہوتے ہیں، پانی کی قلت ہو جاتی ہے، زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے، زراعت پر بھی سنگین اثرات ہوتے ہیں، فصلوں کو پانی نہ ملنے سے پیداوار متاثر ہوتی ہے، پانی کی قلت معاشی بدحالی کا بھی سبب بنتی ہے، حکومت کو خوراک درآمد کرنا پڑتی ہے، خطرناک ماحولیاتی اثرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، قحط سالی کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

سب باتیں اپنی جگہ مگر یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ بارش موسم کا ایک خوبصورت رنگ تو ہے مگر اس کی کئی افراد کے ساتھ یادیں بھی جڑ جاتی ہیں، وہ تلخ بھی ہو سکتی ہیں اور خوشگوار بھی اور کب ہماری یادوں پر دستک دے دے، کوئی خبر نہیں،

جدا اور منفرد، بارش کا ہر رنگ
لطف اٹھائیے موسم کا، یادوں کے سنگ

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp