امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کو پیٹریاٹ میزائل سسٹمز فراہم کرنے کے اعلان کا یوکرین نے گرمجوشی سے خیرمقدم کیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب روس کی جانب سے ہر رات ڈرونز اور میزائل حملے یوکرینی شہروں کو ہدف بنا رہے ہیں۔
یوکرینی صدر ولادیمیرزیلنسکی حالیہ ہفتوں میں پیٹریاٹ سسٹمز کے لیے کئی بار اپیل کر چکے تھے تاکہ روسی حملوں سے شہروں کو بچایا جا سکے، تاہم صدر ٹرمپ کے اعلان میں تفصیل کا فقدان ہے، اب بھی یہ واضح نہیں کہ یوکرین کو کتنے سسٹمز دیے جائیں گے، کب پہنچیں گے، اور یہ کس ملک سے فراہم کیے جائیں گے۔
پیٹریاٹ سسٹم کیا ہے؟
پیٹریاٹ دراصل امریکی فوج کا جدید اور کلیدی فضائی دفاعی نظام ہے، جو سسٹم حال ہی میں قطر میں امریکی ایئربیس پر ایرانی میزائل حملے کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوا تھا، جہاں 14 میں سے 13 میزائلوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔
پیٹریاٹ میزائل سسٹمز شارٹ رینج بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور ڈرونز کو 15 کلومیٹر کی بلندی اور 35 کلومیٹر کے فاصلے تک نشانہ بنا سکتے ہیں، ایک بیٹری تقریباً 100 سے 200 مربع کلومیٹر کے علاقے کو کور کر سکتی ہے، لیکن یوکرین جیسے بڑے ملک کے لیے یہ کوریج ناکافی ہے، اسی لیے صدر زیلینسکی نے کم از کم 10 نئی بیٹریوں کی ضرورت ظاہر کی ہے۔
ہر بیٹری میں 6 سے 8 میزائل لانچرز ہوتے ہیں، جن میں ہر ایک 16 انٹرسیپٹرز لے جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ جدید ریڈار، کنٹرول اسٹیشن اور بجلی کا نظام شامل ہوتا ہے۔ ایک بیٹری کو چلانے کے لیے 90 اہلکار درکار ہوتے ہیں، لیکن صرف 3 افراد ہی اسے جنگی صورت حال میں آپریٹ کر سکتے ہیں۔
بھاری قیمت، محدود رسائی
پیٹریاٹ سسٹم کی لاگت بھی خاصی زیادہ ہے، ایک مکمل بیٹری پر ایک ارب ڈالر سے زائد خرچ آتا ہے، جبکہ ایک انٹرسیپٹر میزائل کی قیمت تقریباً 40 لاکھ ڈالر تک ہے، اس کے مقابلے میں روسی ڈرونز کی قیمت محض 50 ہزار ڈالر تک ہو سکتی ہے، جو اس دفاعی نظام کے معاشی پہلو کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
امریکی حکام کے مطابق، اگر نیٹو کے یورپی اتحادی اپنے سسٹمز یوکرین کو منتقل کریں تو پیٹریاٹس جلد پہنچ سکتے ہیں، بعد میں ان سسٹمز کی جگہ امریکا نئے سسٹمز فراہم کر دے گا، اطلاعات کے مطابق، 17 ممالک کی جانب سے آرڈر کی گئیں پیٹریاٹ بیٹریوں میں سے کچھ یوکرین کو جلد فراہم کی جا سکتی ہیں۔
اس وقت جرمنی، یونان، نیدرلینڈز، پولینڈ، رومانیہ اور اسپین پر مشتمل 6 نیٹو اتحادی ممالک اپنے دفاعی ذخیرے میں پیٹریاٹ سسٹمز رکھتے ہیں۔
محدود اثر، مکمل حل نہیں
نیٹو سیکریٹری جنرل مارک روٹے کے مطابق جرمنی، فن لینڈ، ڈنمارک، سویڈن اور ناروے نئے دفاعی سازوسامان کے ممکنہ سپلائر ہو سکتے ہیں، تاہم انہوں نے واضح طور پر پیٹریاٹ سسٹمز کا نام نہیں لیا۔
امریکی فوجی حکام کا بھی کہنا ہے کہ پیٹریاٹ نظام پہلے ہی شدید دباؤ میں ہے، جنرل جیمز مینگس کے مطابق، قطر میں تعینات پیٹریاٹ یونٹ 500 دنوں سے زیادہ عرصے سے مسلسل کام کر رہا ہے، جو کہ ایک انتہائی دباؤ میں کام کرنے والا یونٹ ہے۔
اب تک یوکرین کو 6 مکمل طور پر فعال پیٹریاٹ بیٹریاں موصول ہو چکی ہیں، 2 امریکا سے، 2 جرمنی سے، ایک رومانیہ سے اور ایک مشترکہ طور پر جرمنی اور نیدرلینڈز سے، لیکن ماہرین متفق ہیں کہ صرف پیٹریاٹ سسٹمز روسی حملوں کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔
سابق امریکی جنرل اور نیٹو کے سپریم کمانڈر ویسلی کلارک کا کہنا ہے کہ اگر واقعی میدان جنگ میں کوئی فرق لانا ہے تو صرف دفاعی نظام کافی نہیں، بلکہ حملہ آور کی اصل طاقت کو نشانہ بنانا ہو گا، ان کے بقول، اگر آپ واقعی اس کو روکنا چاہتے ہیں تو آپ کو روس کو نشانہ بنانا ہو گا۔