وفاقی وزیر مذہبی اور سردار یوسف نے کہا ہے کہ ایران اور عراق کے مقدس مقامات کی زیارات کا نیا مربوط نظام لا رہے ہیں، پرانا نظام جلد ختم ہو جائےگا، خواہش مند کمپنیاں وزارت کے ساتھ فوری رجسٹرڈ ہوں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وفاقی کابینہ نے زائرین گروپ آرگنائزرز کا نیا نظام منظور کیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے وزارت نے ایک اشتہار جاری کیا تھا، اب تک 1400 سے زیادہ کمپنیوں نے وزارت کے ساتھ بطور زیارت گروپ آرگنائزر رجسٹرڈ ہونے کے لیے درخواستیں جمع کروائی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، ایران اور عراق کا زائرین کی سہولت کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق
انہوں نے کہاکہ سیکیورٹی کلیئر کرنے والی 585 کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وزارت کی ویب سائٹ کے ذریعے آن لائن رجسٹریشن کا عمل فوری مکمل کرتے ہوئے اپنی دستاویزات 31 جولائی سے قبل وزارت کو ارسال کریں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک دوسرے اشتہار کے ذریعے نئی درخواستیں بھی طلب کی گئی ہیں جس کے تحت وزارت کے ساتھ بطور زیارت گروپ آپریٹر کام کرنے کی خواہش مند کمپنیاں 10 اگست تک درخواستیں جمع کروا سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ حج و عمرہ کے ساتھ زائرین کی ذمہ داری بھی وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری ہے۔ ماضی میں عراق و شام و ایران جانے والے زائرین کے لیے خاص نظام نہیں ہوتا تھا۔ زائرین کو منظم کرنے کی منظوری سال 2021میں دی گئی تاہم گذشتہ دورِ حکومت میں اس پر قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر زیارت مینجمنٹ پالیسی پر عمل درآمد تیز کیا گیا ہے، جس طرح حج ٹور آپریٹرز کے ذریعے عازمین حج جاتے ہیں اسی طرح زائرین بھی رجسٹرڈ زائرین گروپ آرگنائزرز کے ذریعے ہی جائیں گے۔ حج ٹور آپریٹرز کی طرح زائرین کے لیے بھی زائرین ٹورآپریٹرز اخراجات کا پیکیج دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ وزیر داخلہ محسن نقوی اور سیکریٹری مذہبی امور ڈاکٹر سید عطا الرحمان سہ ملکی اجلاس کے سلسلے میں ایران میں ہیں۔ ایران، عراق اور پاکستان کے درمیان زائرین کا مسئلہ جدید کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اور عراق جانے والے زائرین کے لیے فیری سروس شروع کرنے کا اعلان
ایک دوسرے سوال کے جواب میں سردار محمد یوسف نے کہاکہ زائرین کو منظم اس لیے کرنا پڑا کیونکہ 40 ہزار پاکستانی زائرین عراق شام و ایران جاکر وہاں رہ گئے، اگر حکومت پاکستان کے پاس پورا ریکارڈ ہوتا تو ہمیں معلوم ہوتا کہ کون سے زائرین کہاں گئے۔ ماضی میں عراق، ایران اور شام نے بھی پاکستان سے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔