امریکی محکمہ صحت نے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کا عمل مکمل کر لیا ہے، جس کے تحت 20 ہزار سے زائد ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اُس وقت ممکن ہوا جب سپریم کورٹ نے 8 جولائی کو ایک نچلی عدالت کی جانب سے عائد عارضی پابندی کو ختم کر دیا۔
یہ برطرفیاں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کی گئی وفاقی اداروں میں اصلاحات کی پالیسی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد وفاقی حکومت کے عملے میں بھاری کمی کرنا ہے۔ ان برطرفیوں کے بعد، اب امریکی محکمہ صحت کا عملہ 82,000 سے کم ہو کر تقریباً 62,000 رہ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے امریکی شہریت اب صرف پیدائش سے نہیں ملے گی، سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیدیا
محکمہ صحت کے ترجمان نے 15 جولائی کو تصدیق کی کہ جن ملازمین کو پہلے برطرفی کے نوٹس دیے گئے تھے، ان میں سے زیادہ تر کو اب باقاعدہ طور پر فارغ کر دیا گیا ہے۔ کچھ افراد نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا انتخاب بھی کیا۔
ان برطرفیوں سے متاثرہ پروگراموں میں CDC کا HIV سے بچاؤ کا شعبہ، تمباکو نوشی کی روک تھام کے اقدامات، اور FDA کے تحت جاری متعدد صحت عامہ کے منصوبے شامل ہیں۔ ماہرین صحت نے ان کٹوتیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر کولین کیلی، چیئر، HIV میڈیسن ایسوسی ایشن، نے کہا: ’آج کے اقدامات میں بے ترتیبی اور لاپروائی ہے، جو امریکی عوام کی صحت کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچائے گی۔‘
یہ بھی پڑھیے امریکی صدر ٹرمپ کا ’بگ بیوٹی فل بل‘ کیا ہے؟ 55 فیصد امریکی کیوں مخالف ہیں؟
واضح رہے کہ وزیر صحت رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے مارچ میں ان اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدامات ’بیوروکریسی کو کم‘ کرنے اور محکمہ کو اس کے ’اصل مشن اور نئی ترجیحات‘ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
یہ فیصلے صحت عامہ کے ماہرین، سماجی تنظیموں اور اپوزیشن کی شدید تنقید کا شکار ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات سے امریکا میں بیماریوں کی روک تھام، حفظانِ صحت اور مالی طور پر کمزور طبقات کو خدمات کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے۔














