سپریم کورٹ آف پاکستان اب سے پہلے کئی مقدمات میں فل کورٹ بنانے کی درخواستیں مسترد کر چکی ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے معاملے میں بھی فل کورٹ بنانے سے احتراز کرے گی یا اس مربتہ اس کا فیصلہ کچھ اور ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے اس وقت وفاقی حکومت، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان بار کونسل کی درخواستیں زیر سماعت ہیں جنہوں نے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا ہوا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایکٹ آف پارلیمنٹ پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نیئر حسین بخاری اور پاکستان تحریک انصاف کے فواد چوہدری بھی عدالت میں موجود تھے۔
گزشتہ سماعتوں کے برعکس اس سماعت پر سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کی موجودگی دیکھنے میں نہیں آئی تاہم سیاسی جماعتوں کے وہ رہنما عدالت میں ضرور آئے جن کا تعلق وکالت کے شعبے سے ہے۔
سماعت کے شروع میں اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل کا آغاز ہی فل کورٹ بنائے جانے کے مطالبے سے کیا۔ انہوں نے عدالت کے گزشتہ حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اس مقدمے میں آبزرویشن دی ہوئی ہے کہ اس ایکٹ آف پارلیمنٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس سے قبل عدلیہ کی آزادی کی کیا صورتحال تھی۔
دیکھنا ہوگا کیا سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کی جاسکتی ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا آئین کے تحت سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے بھی وہی بات کرتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر آرٹیکل 191 کی موجودگی میں جس کے تحت سپریم کورٹ کو اپنے رولز خود بنانے کا اختیار ہے کیا اس کے رولز میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے دلائل دیتے ہوئے آل انڈیا ایکٹ 1935، آئین پاکستان 1956 کا حوالہ دیا کہ ان میں آئینی مسئلے پر سماعت کے لیے گورنر جنرل اور صدر کی منظوری ضروری تھی۔
اس پر بینچ کی رکن جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فل کورٹ کی ضرورت پر دلائل دینے چاہییں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ عوام کا اعتماد صرف فل کورٹ پر ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیسے فرق کریں گے کہ کس کیس میں فل کورٹ بنائی جانی چاہیے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی منطق ہماری سمجھ میں نہیں آرہی، کیسے فیصلہ کریں گے کہ فلاں کیس میں 3 رکنی بینچ بنے گا اور فلاں کیس میں فل کورٹ بنے گی۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو ایکٹ آف پارلیمنٹ آیا ہے اس کے سیکشن 4 میں لکھا ہے کہ آئینی مقدمات میں کم از کم 5 رکنی بینچ بنے گا اور اٹارنی جنرل صاحب آ کر کہتے ہیں کہ فل کورٹ ہی بنائی جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا اس ایکٹ آف پارلیمنٹ کا اطلاق ہائیکورٹس پر بھی ہو گا؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مستقبل کے لیے بھی رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کب فل کورٹ بننی چاہیے اور کب نہیں۔
عدلیہ کی آزادی سے متعلق معاملات میں فل کورٹ بننی چاہیے: اٹارنی جنرل
اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ جو معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہو اور جس معاملے میں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنے کا معاملہ ہو اس میں فل کورٹ بننی چاہیے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح اور پنجاب میں انتخابات کے التوا کے معاملات پر فریقین کی درخواستوں کے باوجود فل کورٹ نہیں بنائی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ تمام مقدمات بطور فل کورٹ ہی سنتی ہے لیکن ہم برطانوی ماڈل کو فالو کرتے ہیں جس میں بینچز بنائے جاتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے 3 مقدمات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس افتخار محمد چوہدری اور آئی جی پریزن کے مقدمات میں فل کورٹس تشکیل دیں۔
انہوں نے کہا کہ ان مقدمات میں جب سمجھا گیا کہ معاملہ پیچیدہ ہے تو فل کورٹ کے لیے بھجوا دیا گیا۔
فائز عیسیٰ اور افتخار چوہدری کے مقدمات بالکل مختلف ہیں: چیف جسٹس
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمات بالکل مختلف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں مقدمات میں عدلیہ کی آزادی پر حرف آیا تھا اور ججوں کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجے گئے جو مسترد ہوئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ن لیگ پارلیمنٹ کا سب سے بڑا حصہ ہے اور اس نے ایکٹ آف پارلیمنٹ میں لکھا ہے کہ آئینی معاملات میں 5 رکنی بینچ کو مقدمات سننے چاہییں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ فل کورٹ ہونی چاہیے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ عدالت کے صوابدیدی اختیارات مرتب انداز میں روبہ عمل آنے چاہییں اور عدالت کو اس معاملے میں معیار مقرر کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات ریزن پر مبنی ہونے چاہییں نہ کہ صوابدیدی اختیارات پر۔
سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں یہ معاملہ جلد حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔
انہوں نے کہا ہمارے ایک جج صاحب اسلام آباد سے باہر جا رہے ہیں۔ اس درخواست کو تین ہفتے بعد دیکھیں گے۔
اس سے قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ کسی بل کو قانون کو بننے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ آنے کے بعد جج صاحبان کس طرح اس مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس بات کا جواب تو جج صاحبان ہی دے سکتے ہیں۔