گمشدہ موزوں کا عالمی دن

منگل 9 مئی 2023
author image

مہوش بھٹی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خواتین و حضرات !!
ایک ضروری اعلان ،ایک موزہ جس کا رنگ نیلا بتایا گیا ہے وہ کچھ ہفتوں سے غائب ہے آخری بار وہ جہاں نظر آیا تھا ، صرف اس موزے کو ہی پتہ ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ دعا کریں کہ یہ موزہ ایک معجزے سے بخیرو عافیت گھر واپس آ سکے ، اعلان ختم۔

جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور موزے زمین پرلیکن موزوں کی رفاقت کا سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل پاتا ۔ کیا یہ کائنات کا کوئی نظام ہے یا یہ دوریاں موزوں کا مقدر ہیں؟ اس راز کا پردہ فاش کرنا انسانی عقل کے لیے نا ممکن ہے۔

میرے ذاتی تجربے کے مطابق انسان اپنی زندگی کا 60 فیصد وقت اس گمشدہ موزے کو ڈھونڈنے میں ہی گزار دیتا ہے ۔ سجاد علی نے ایک گانے میں کہا تھا کہ پیار جہاں ملتا ہے پتہ بتا دو ۔ وہ پتہ بھی مل گیا لیکن نہ ملا تو اس کھوئے ہوئے موزے کا پتہ نہ ملا۔ ہمارے بچپن میں جو کہ ڈائنا سورس کے دور سے بھی جانا جاتا ہے ، موزے سفید، کالے یا بھورے رنگ کے ہوتے تھے ۔ ان پہ کسی بھی قسم کا ایسا ڈیزائن نہیں ہوتا تھا جس سے بندہ پہچان کے کہہ سکے ” یہی میرا موزہ ہے”۔ پھر جب یہی موزہ گم جاتا تھا ، تو اسے ڈھونڈنے کی امید تلاش سے پہلے ہی ختم ہو جاتی تھی۔ ہاں موزے کے حجم کے لحاظ سے تو پہچانا جا سکتا تھا لیکن اگر ایک ہی گھر میں تقریباََ ایک جیسا سائز ہو ، تو آپ کو ہر موزے کو پکڑ کر پوچھنا پڑتا تھا “کیا تم میرے ہو؟”یہ ایسا ہے جیسے کوئی کنفیوزڈ محبوب گلاب کا پھول پکڑ کر اس کی پتیا توڑ کر کہے ” وہ میری ہے، وہ میری نہیں”

جب تھک ٹوٹ کے سب امیدیں کھو کہ آپ اپنی والدہ یا شریکِ حیات کے پاس جاتے ہیں کہ مجھے میرا موزہ لوٹا دو! پہلے آپ کو کھری کھری سنائی جاتی ہیں کہ ہم حرام کے پیسے نہیں کماتے جو تم موزہ گماتی رہتی ہو ۔ اکثر گھر والےشدید محبت کا اظہار کرنے میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ” اب ایک موزہ پہن کر جاؤ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ تم کتنی نکمی ہو “۔

والدہ صاحبہ اکثر دو الگ موزے اٹھا کر دے دیتی تھیں یہ کہہ کر کہ ” تم کو کونسا کسی نے دیکھنا ہے”۔ ایک تو موزہ گمانے پر بے عزتی ، اوپرسے مناسب سے تھوڑا کم شکل ہونے کا طعنہ ! دل تو کرتا تھا کہ وہی موزہ منہ پہ چڑھا لوں ۔ اکثر کسی اور کے موزے پہنا کر بھیج دیا جاتا تھا اور پورا دن میرے دماغ میں یہی چلتا تھا کہ “تو میرا نہیں تو میر ا نہیں “

میں نے اکثر مردوں کو موزے سونگھتے دیکھا ہے اور پوچھنے پر بتایا جاتا تھا کہ ہم پہچان رہے ہیں کہ یہ ابو کا ہے یا میرا ۔ یہ پڑھ کے آپ کی طبیعت خراب تو ہوئی ہوگی لیکن مجھے ہمیشہ تجسس رہے گا کہ کیا ہر موزے کی اپنی “خوشبو ” ہوتی ہے؟ جو بھی طریقہ آزمایا گیا ایک روٹھے ہوئے، کھوئے موزے کو واپس لانے کےلیے ، اس کا انجام ہمیشہ ایک ہی ہوا ہے : موزہ نہ ملے گا دوبارہ!

اس چٹھی نہ کوئی سندیس ، جانے وہ کونسا دیس، جہاں تم چلے گئے والے حالات کوبدلنے کے لیے میں نے بہت رنگین اور خاص ڈیزائن والے موزے خریدنے شروع کیے ۔ مقصد یہی تھا کہ اگر گم ہوں، تو ڈھونتے ہوئے ہر سفید یا کالے موزے کو میں اپنا نہ سمجھ کے بیٹھ جاؤں ۔ لیکن یہ عالم ہے کہ موزہ پھر گم گیا ہے ،زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ! یہ بے آواز گمشدگی ہم سب کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے ۔

ایک موزے کا جوڑا مجھے بہت پسند ہے اور آج کل وہ گما ہوا ہے ۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد جب وہ نا ملا تو میں افسردگی میں بیٹھ کے گزشتہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی بات کو دہرانے لگی کہ ” میں آپ سب کو کمرے میں بند کر کے اندر سے کنڈی لگا دوں گا ” اب شاید مجھے بھی یہی کرنا پڑے نا صرف گمشدہ موزے کے لیے بلکہ جو موزے معجزاتی طور پر بچ گئے ہیں ان کے لیے بھی۔

آخر میں بس یہی کہوں گی وہ اب سب موزے جو کھو گئے ہیں ، وہ سب موزے واپس آنا چاہتے ہیں ، وہ سب جو واپس نہیں آنا چاہتے ہیں، ہم آپ کو بھولے نہیں اور نہ بھولیں گے ۔ وہ سب موزے جو الماری میں ہمارا نتظار کرہے ہیں ان کو ہم کہیں گے” جانے نہیں ، دیں گے تمہیں “۔ اور وہ موزے جو ہم اس لیے نہیں پہن رہے کیوں کہ ان کی حالت تشویشناک ہے ،وہ ہمیں اکثر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں :
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم !

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہوش بھٹی کبھی کبھی سوچتی اور کبھی کبھی لکھتی ہیں۔ اکثر ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp