زبان کا زوال، سماج کا زوال

جمعرات 17 جولائی 2025
author image

شاہدہ مجید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم بدتمیز کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟

ہماری محفلوں میں، سڑکوں پر، چوراہوں اور تھڑوں پر، سوشل میڈیا پر، ایوانوں میں، حتیٰ کہ دینی حلقوں میں بھی ایک شور برپا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے ہر کوئی برداشت، اَدب اور لحاظ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکا ہے۔ نہ بڑے کو چھوٹے کا لحاظ رہا، نہ چھوٹے کو بڑے کا۔ نہ مردوں کو عورتوں کا پاس ہے، نہ عورتوں کو مردوں کا۔

ذاتی رائے، پسند و ناپسند، اختلافِ رائے، یہ سب اب رشتوں سے بھی بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آزادیِ اظہار اب بے ہنگم شور بن چکی ہے؛ مکالمہ اور دلیل دم توڑ چکے ہیں۔ اَنا اپنی جڑیں مضبوط کرتی جا رہی ہے، کوئی کسی کو سننے پر آمادہ نہیں، ہر طرف ایک غصہ ہے، ایک فرسٹریشن ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے پورا سماج کسی بند گلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ایک ایسی اخلاقی دلدل کی جانب جہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی، اور جس کا نتیجہ نسلوں کی تباہی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

جب اختلاف چیخ میں بدل جائے۔

جب بدگوئی، بدکلامی، گالی اور کردار کشی روزمرہ بن جائیں۔ اور جب ذاتی حملوں کو ’ہنر‘ سمجھ کر سراہا جانے لگے، تو یہ کسی فرد کا نہیں، پورے معاشرے کے اجتماعی زوال کا اشارہ ہوتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے:

یہ زوال آیا کیسے؟

اس کے محرکات کیا ہیں؟

اور کیا اس کو روکا جا سکتا ہے؟

کیوں نا ان محرکات کا ایک بار مشاہدہ کر لیا جائے، جو اس کا باعث بنے۔ تعلیم و تربیت کی کمی اپنی جگہ، لیکن سب سے پہلے جس چیز نے معاشرتی مزاج کو بگاڑا، وہ معاشی بدحالی ہے۔

مفلسی صرف جسم کو نہیں تھکاتی، دل اور دماغ کو بھی زنگ آلود کرتی ہے۔ جب انسان کی بنیادی ضروریات روٹی، علاج، روزگار، تحفظ وغیرہ پوری نہ ہوں، تو وہ غصے، جھنجھلاہٹ اور چڑچڑاہٹ سے بھر جاتا ہے۔

پھر یہی غصہ زبان پر آتا ہے، اور دوسروں پر نکلتا ہے۔ اور معاشرے کا ہر کمزور انسان اس کا نشانہ بنتا ہے۔ چاہے وہ سڑک پر کھڑا ٹریفک وارڈن ہو، بس کا کنڈکٹر ہو، یا کسی دفتر کا عام ملازم۔

سیاستدان کسی قوم کا ترجمان اور رہنما ہوتا ہے۔ اس کے الفاظ، اندازِ گفتگو، اور لہجہ — قوم کے اجتماعی شعور کا عکس ہوتے ہیں۔ تنقید جمہوری عمل ہے۔ مگر اس کی بھی ایک تہذیب ہے۔

جب تنقید دلیل کی بجائے تحقیر بن جائے۔ اور جب اختلاف ذاتیات، کردار کشی اور غیر پارلیمانی الفاظ تک پہنچ جائے۔ تو پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔

آج سیاسی اختلاف اس نہج تک جا پہنچا ہے کہ خواتین سیاست دانوں پر بھی غیر مہذب، توہین آمیز جملے کسے جاتے ہیں۔ لاکھ اختلاف ہو کسی پارٹی سے عورت کا گالی کسی طور قابل قبول نہیں۔

اگر ہم کسی خاتون  کو دی گئی گالی کو ’عوام کی آواز‘ کہہ کر سراہیں گے۔ تو آنے والی نسلوں کا اخلاق تباہ ہونے سے نہیں بچایا جا سکے گا۔ افسوس کہ پارلیمنٹ سے لے کر گلی تک زبان کا بحران ہے۔ اور جس انداز میں ہمارے نمائندوں نے گفتگو کا معیار گرا دیا۔

یہی لب و لہجہ عوام نے بھی اپنا لیا۔ گالی کو نعرہ، تضحیک کو حکمت، اور مخالفت کو دشمنی سمجھا جانے لگا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دانوں کو اپنی زبان کے اثرات کا ادراک ہو۔ پارٹیوں میں اخلاقی تربیت کے سیشنز لازمی ہوں۔ اور قیادت خود شائستگی کی مثال بنے۔

بدتمیزی کا دوسرا بڑا محرک میڈیا، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل بدتہذیبی ہے۔ سوشل پلیٹ فارمز پر ریٹنگ، لائکس اور وائرل ہونے کی دوڑ نے تہذیب کو روند ڈالا ہے۔

ایسے چہرے پروموٹ کیے جا رہے ہیں جن کے پاس نہ دلیل ہے نہ ادب، صرف ہنگامہ۔ جو جتنا بدزبان، وہ اتنا مشہور۔ اس دوڑ میں ہر کوئی دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں مصروف ہے۔

میڈیا میں اخلاق باختہ بیانات پر گرفت ہونی چاہیے۔ ریٹنگ کا معیار تہذیب ہو، نہ کہ تضحیک، گالی اور نفرت کو ’وائرل مواد‘ سمجھنا بند ہونا چاہیے۔ یوٹیوبرز، اینکرز، ایکٹیوسٹس کو اخلاقی تربیت دی جائے۔

آخر میں اصل جڑ — تعلیم و تربیت کا بحران۔ ہم نے تعلیم کو صرف ڈگری تک محدود کر دیا۔ ادارے کتابیں تو پڑھا رہے ہیں۔ مگر سلیقہ نہیں سکھا رہے۔

بچوں کو ریاضی، سائنس، کمپیوٹر تو سکھاتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سکھاتے کہ اختلاف کیسے کرنا ہے۔ بڑوں سے کیسے بات کرنی ہے۔ سوشل میڈیا پر الفاظ کا چناؤ کیسا ہونا چاہیے۔

مکالمہ اور برداشت کیا ہوتے ہیں۔

یہ خلا نہ پُر کیا گیا تو آنے والی نسلیں علم کے باوجود بدلحاظ۔

اور ذہین ہونے کے باوجود غیر مہذب ہوں گی۔ ضروری ہے کہ سلیقہ، شائستگی اور ادب کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے۔ بچوں کو اختلافِ رائے، برداشت اور مکالمے کا سلیقہ سکھایا جائے۔

ہم ان حالات سے کیسے نکلیں گے؟

یہ ہمیں خود طے کرنا ہے۔ کیونکہ یہ معاشرہ ہم سب کا ہے۔ اور اس کی شائستگی یا زوال ہم سب کی زبانوں اور رویّوں سے جُڑا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے گالی نہیں، دلیل سے بات کریں تو ہمیں آج ہی سے، ابھی سے، اپنے اندازِ گفتگو پر نظرثانی کرنی ہو گی۔

آغاز گھر سے ہو، سوشل گروپس میں ہو، یا مذہبی محفلوں میں، الغرض ہر جگہ تعصب سے بالا تر ہو کر اخلاقی آداب کی پاسداری لازم ہے۔ ورنہ کل جب ہمارے بچے ہمیں ہی پلٹ کر جواب دیں گے

تو ہم فقط اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp