ایٹمی تجربات کے اثرات کس طرح تمام انسانوں کے جسموں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں؟

جمعرات 17 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

17 جولائی 2025 کو دنیا کو پہلا ایٹمی تجربہ کیے ہوئے 80 سال مکمل ہو چکے ہیں مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کا اثر آج بھی ہمارے جسموں میں محفوظ ہے۔

ٹرینٹی کے نام سے یہ پہلا تجربہ 16 جولائی 1945 کو امریکا نے نیو میکسیکو کے صحرا میں کیا تھا جس نے نہ صرف زمین بلکہ فضا کی کیمیائی ساخت کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس دھماکے سے پیدا ہونے والا ایک انوکھا عنصر جسے سائنسدان ‘بم اسپائیک’ یا ’بم پلس‘ کہتے ہیں آج بھی ہمارے دانتوں، آنکھوں اور دماغ میں موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ایٹمی جنگ اور تابکاری کا سایہ، کیا پاکستان کی فضا زہر آلود ہو رہی ہے؟

1950 کی دہائی میں امریکا اور روس نے سینکڑوں ایٹمی دھماکے فضا میں بھی کیے۔ ان تجربات سے خارج ہونے والے جوہری مواد نے قدرتی نائٹروجن سے مل کر کاربن-14 نامی ایک نایاب آئسوٹوپ پیدا کررہا ہے جو اب زمین کے تقریباً ہر کاربن ذخیرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ آئسوٹوپ یوں تو فضا میں پہلے سے موجود تھا تاہم ایٹمی تجربوں کے بعد اس کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے جسے ‘بم اسپائیک’ کہا جاتا ہے۔ کاربن-14 نقصان دہ نہیں بلکہ اب یہ ‘کاربن ڈیٹنگ’ کی صورت سائنسی تحقیق کے لیے نہایت مفید ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف انسانی جسم میں خلیوں کی عمر معلوم کی جا سکتی ہے بلکہ یہ جانچنا بھی ممکن ہو گیا ہے کہ کسی شخص کی پیدائش یا کسی لاش کی موت کب ہوئی تھی۔

پہلا ایٹمی تجربہ 16 جولائی 1945 کو امریکا نے نیو میکسیکو کے صحرا میں کیا

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سویڈن کی محقق ڈاکٹر کرسٹی اسپالڈنگ نے بم اسپائیک کا استعمال کرتے ہوئے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسانی دماغ کے کچھ حصے، خاص طور پر ‘ہپوکیمپس’ میں عمر بھر نئے نیورون بنتے رہتے ہیں۔ یہ دریافت اعصابی امراض کے علاج کے لیے ایک نئی امید بن کر سامنے آئی ہے۔ اسی طرح یہ بھی پتا چلا کہ انسانی جسم میں موجود چربی کے خلیے مسلسل مرتے اور پیدا ہوتے رہتے ہیں چاہے ان کی مجموعی تعداد تبدیل نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیے: ’کوئی ثبوت نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے‘، بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی

دلچسپ بات یہ ہے کہ بم اسپائیک صرف انسانوں تک محدود نہیں۔ اسے شراب کی پرانی بوتلوں کے اصل سال کا پتہ لگانے، ہاتھی دانتوں کی غیرقانونی تجارت کی جانچ اور گرین لینڈ کی صدیوں پُرانی شارک کی عمر معلوم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔

یہی کاربن-14 اب زمین کی نئی ارضیاتی تاریخ یعنی اینٹھروپوسین کے آغاز کا نشان بھی بن سکتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے زمین کا ماحول متاثر ہونا شروع ہوا۔ 2023 میں ماہرین نے کینیڈا کی کرافورڈ جھیل میں بم اسپائیک اور دیگر جوہری نشانات ملنے کی بنیاد پر اسے اس نئے دور کی علامت قرار دینے کی سفارش کی۔ اگر یہ تجویز منظور ہو جاتی تو زمین کی نئی تاریخ میں ہم سب کے جسم اپنے اندر اس دور کا ثبوت لیے ہوئے ایک زندہ نشانی بن جاتے جب دنیا میں ایٹمی تجربے کیے گئے۔

گو کہ اس پر سائنسی دنیا میں اتفاق نہیں ہو سکا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ 1950 کی دہائی میں کیے گئے دھماکوں کا اثر یعنی کاربن-14 آج بھی ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک کیمیائی یادگار کی صورت باقی رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp