ارطغرل ثانی کا کھیل/ آخری حصہ

جمعہ 18 جولائی 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنہیں ان کی امارت کے سبب سلطان بایزید دوم ریسکیو کرکے لایا تھا، ان کے اب وارے نیارے ہونے والے تھے۔ سو انہیں خوش رکھنا، اور دربار و ریاستی امور میں وسیع عمل دخل دینا اگلی 4 صدیوں تک عثمانی حکمرانوں کا مستقل چلن بن گیا۔ اور عثمانی اقتدار گویا ترک یہودی پارٹنرشپ کا ہی تاثر دیتا تھا۔  آخری عثمانی خلیفہ کے دور میں تو ترکی کے صرف مالیاتی شعبے میں ہی 7 ہزار یہودی تعینات تھے۔ کالم کے محدود دامن میں سب کچھ نہیں سما سکتا۔ سو تفصیل کے لیے عثمانی تاریخ کے یہودی اینگل کو سمجھنے کے لیے تاریخی کتب سے رجوع ہی موزوں آپشن ہے۔ ہم عثمانی دور کے چند ٹاپ یہودیوں کے اسمائے گرامی پیش کرکے دوسری کڑی کو سمیٹتے ہیں:

(1)  جوزف ناسی۔ یہ سلطان سلیمان اعظم اور سلطان سلیم ثانی کا خارجہ امور کا مشیر تھا۔ سلطان اس کی خدمات سے اتنا متاثر تھا کہ اسے ڈیوک آف نکسوس(یونانی جزیرہ) کا شاہی اعزاز بھی عطا کر رکھا تھا۔

(2)  سلومون اشکنازی۔ یہ شاہی طبیب اور خارجہ امور میں یورپین ڈیسک کا انچارج رہا۔

(3)  موسے بن باروخ۔ یہ سلطان کا مشیر خزانہ تھا۔ بہت امیر تھا۔ بوقت ضرورت سلاطین اور ریاست کو قرض بھی فراہم کرتا تھا۔ اس نے سرکاری قرضوں کی ایک اسکیم بھی ترتیب دی تھی۔

(4)  ایلئی جاہ کرائیتو۔ یہ منتظم مالیات بھی تھا اور شاہی مؤرخ بھی۔

(5)  دونا گراسیا ناسی۔ یہ خاتون ہیں۔ یہ ذاتی حیثیت میں تاجر اور سرکاری حیثیت میں سلطانی بینکار تھیں۔ سونے اور چاندی کے سکوں کی ترسیلات کے سسٹم کو اس زمانے کے حساب سے ماڈرن خطوط پر تشکیل دینا ان کا عثمانی کارنامہ ہے۔

(6)  موزیس حمون۔ یہ سلطان سلیمان اعظم کا خاندانی معالج تھا۔کئی کتب کا مصنف بھی ہے اور یورپین شاہی درباروں تک اس کی شہرت تھی۔

(7)  ڈیوڈ ابن یحی۔ یہ شاہی ماہر تعلیم تھا۔ قانون کے شعبے میں خاص مہارت تھی۔ اہم عثمانی تعلیمی اداروں استاد بھی رہا۔

(8)  ایلیا بنیامین لیوی۔ یہ سلطنت میں منظم طباعت کا بانی ثابت ہوا۔ 1493ء میں میں استنبول میں عبرانی طباعت کا پہلا پرنٹنگ پریس قائم کرنا اس کا اہم کارنامہ مانا جاتا ہے۔

(9)  یہودا زارا۔ یہ عثمانی دربار کی شاہی نجومن تھی۔

(10)  اسحاق پاراتی۔ ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی امور کا مشیر تھا۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ 10 نام پڑھ کر آپ کو فیلنگز یہی آئی ہوں گی کہ ہم شاید نیتن یاہو کی کابینہ کے ارکان گنوا رہے ہیں۔ مگر تسلی رکھیے یہ صالحین کے آبا و اجداد کے دربار کے ہی محض چند نام ہیں۔

اب تک آپ دو کڑیاں ملاحظہ فرما چکے۔ پہلی کڑی میں تھوڑی تشنگی کے ساتھ آپ کو یہ بتایا گیا کہ حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ اسلام نہیں ترک نیشنلزم کے احیا کے مشن پر ہیں۔ وہی ترک نیشنلزم جس کے ردعمل میں عرب نیشنلزم کا ظہور ہوا تھا۔ دوسری کڑی کی مدد سے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ترک اور یہودی بہت گہرا تاریخی رشتہ رکھتے ہیں اور اس رشتے کی رو سے یہ ایک دوسرے کے نہایت قابل اعتماد سگے ہیں۔اتنے سگے کہ تنگ زمین کے سبب اسرائیلی فوج دور مار ہتھیاروں کی ٹریننگ اور مشقیں بھی حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ کے ترکی میں کرتی ہے۔ ترکوں پر اسرائیل کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ وہ تیل بھی کسی عرب ملک سے نہیں بلکہ اوغوز قبائل والے ترکی النسل ملک آذربائیجان سے خریدتا ہے۔ جس کی پائپ لائن حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ کے ترکی سے گزر کر اسرائیل پہنچتی ہے۔لیکن صالحین کبھی بھی اپنے نام نہاد امیر المؤمنین کے کردار کے اس پہلو پر بات نہیں کرتے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ترک اور یہود رشتہ اتنا ہی گہرا ہے تو پھر وہ ترک فلوٹیلہ والا معاملہ کیوں پیش آیا تھا  جب ارطغرل ثانی سچ مچ والے ارطغرل نظر آنے لگے تھے؟ جواب بہت سمپل ہے، صالحین کو کھیلنے کے لیے کچھ کھلونے بھی تو دینے ہوتے ہیں تاکہ وہ نشاۃ ثانیہ والا چورن مزید جوش و خروش سے بانٹ سکیں۔ ورنہ  حضرت ارطغرل ثانی کا اصل چہرہ یہ ہے کہ حضرت نے ابھی چند ماہ قبل شام میں الجولانی کو مسلط کروا کر اسرائیل کی حزب اللہ سے جان چھڑائی۔ اور قبلہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی الجولانی کے سر کی قیمت ختم کرکے شام کا عین قانونی حکمران بنا دیا۔

بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اصل خبر تو یہ ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے میں ترکی اور آذربائیجان نے پوری سہولت کاری کی۔ جو اس وقت عالمی سطح پر موضوع بحث ہے۔ اگر آپ نہیں جانتے تو اب جان لیجیے کہ آذربائیجان اسرائیل کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ صالحین سے پوچھ کر بتایے گا ضرور کہ انہیں مطلب معلوم ہے اسٹرٹیجک پارٹنر کا ؟ یہ اسٹریٹیجک پارٹرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ چنانچہ آذربائیجان نے ایران کے خلاف اسرائیل کو اپنی فضائی حدود تو کنفرم فراہم کیں۔ جس کا ثبوت بحیرہِ کیسپین نے اُگلا ہے۔ روس، ایران، قازقستان، آذربائیجان اور ترکمانستان کے زمینی حصار میں واقع اس بحیرہ سے متعلق اختلاف ہے کہ اسے جھیل مانا جائے یا سمندر ؟ کیونکہ ہے یہ جھیل کی طرح محدود مگر زیادہ وسیع اور پانی اس کا سمندر کی طرح نمکین ہے۔ آذربائیجان اور ایران کی سرحدیں ملتی ہیں، اور جنگ کے بعد بحیرہِ کیسپین نے اسرائیلی طیاروں کے ایکسٹرنل فیول ٹینک اُگل کر ایرانی ساحل پر پھینکے ہیں۔ جس کا مطلب صرف اور صرف یہی بنتا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے آمدورفت کے لیے آذربائیجان کی فضائی حدود استعمال کیں۔

بات صرف اتنی سی نہیں بلکہ ایران میں جن اسرائیلی ڈرونز نے ٹرکوں سے پرواز کرکے حملے کیے یہ عین اسی پیٹرن پر تھے جو پیٹرن چند ہی روز قبل رشین ایئربیسز پر حملے میں استعمال ہوا تھا۔ اور جب روس نے اس حملے کی تحقیقات شروع کیں تو اس کا نتیجہ آذربائیجانی مافیا کے روس میں موجود اہم کارندوں کی گرفتاری کی صورت میں نکلا۔ گویا آذربائیجان اور اسرائیل دونوں جگہ پارٹنرز رہے تھے اور یہ دونوں حملے باہم مربوط تھے۔ ردعمل میں آذربائیجانی حکومت نے اپنے ہاں موجود چند روسی شہریوں کو گرفتار کے ان پر تشدد کیا اور اسی زخمی حالت میں ان کی ٹی وی پر نمائش کی۔ جس کا خمیازہ آذربائیجان کو یوں بھگتنا پڑا کہ روس نے یوکرین میں واقع اس کی جن 2 آئل ریفائنریز کو بخش رکھا تھا، وہ دونوں ہی اڑا دیں۔ جن سے متعلق بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ محض آذری ملکیت میں تھیں بلکہ صدر الہام علیوف کی ذاتی ملکیت تھیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ الہام علیوف ایک کرپٹ لیڈر مانے جاتے ہیں۔ جن کے 36 سالہ بیٹے نے حال ہی میں 30 ملین ڈالر کا گھر خریدا ہے۔

عالمی سیاست میں اندر کی خبر رکھنے والے آزاد ماہرین کی رائے ہے کہ حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ نے شام میں الجولانی دہشتگردوں کا جو لشکر پال رکھا ہے اس کے ارکان کی اکثریت وسطی ایشیا اور چینی باشندوں پر یوں ہی مشتمل نہیں۔ بلکہ ان سے اصل کام ارطغرل ثانی نے وسطی ایشیا میں ہی لینا ہے۔ اور اسی لیے امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس لشکر کو اپنی سرپرستی اور دعاؤں سے نواز رکھا ہے۔ اس لشکر کا ٹارگٹ محض شام نہ تھا۔ بلکہ برکس کے 3 طاقتور ممالک روس، چین اور ایران بھی ہیں۔اس رائے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ابھی 4 دن قبل ہی الجولانی آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں تھا۔

خیال یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل اور امریکا جلد یا بدیر ایران پر ایک اور حملہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ایران والا کام پورا کرنے کا شدید دباؤ ہے۔ ممکنہ طور پر یہ دوسرا حملہ پہلے حملے جیسا صرف فضائی نہ ہوگا۔ بلکہ اس میں براستہ آذربائیجان الجولانی کا لشکر ایران پر زمینی حملہ کرسکتا ہے۔ اس امکان کو شاید روس بھی دیکھ رہا ہے۔ کیونکہ 4 روز قبل روس کی فوج بھاری ہتھیاروں کے ساتھ سینٹرل ایشیا کے 2 ممالک کی شاہراہوں سے گزرتے دیکھی گئی ہے۔ یہ ممالک قازقستان اور ازبکستان ہیں۔ وجہ اس کی جنگیں مشقیں بتائی گئی ہیں مگر یہ بات اچھی خاصی حیران کن یوں ہے کہ روسی فوج تو 3 سال سے جنگ لڑ رہی ہے۔ جو فوج گرم جنگ کے تجربے سے گزر رہی ہو وہ بھی بھلا جنگیں مشقیں کرتی ہے؟

یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ترکی اور اسرائیل دونوں توسیع پسند ممالک  ہیں۔ ارطغرل ثانی کا خواب عظیم تر ترک سلطنت ہے تو نیتن یاہو کی منزل گریٹر اسرائیل۔ یہ تو آپ پر گزشتہ سطور میں واضح ہوچکا کہ یہودیوں اور ترکوں کی یاری صدیوں پر محیط ہے۔ ان دونوں کو ہم شام میں بطور پارٹنر دیکھ چکے۔ اور یہ بھی دیکھ چکے کہ ان کی پارٹنرشپ ’قبضہ کرو اور مل بانٹو‘ کے اصول پر چل رہی ہے۔ جس میں عارضی طور پر ایک رکاوٹ سویدا پر الجولانی کے حملے اور جواباً دمشق پر اسرائیلی حملے سے آئی ہے، مگر اس کا حل عظیم تر مفاد کی خاطر نکال لیا جائے گا۔ سویدا والی صورتحال یوں پیدا ہوئی کہ ارطغرل ثانی نے باپ کی جاگیر سمجھ کر شام کی گولان پہاڑیاں الجولانی سے اسرائیل کو بخشوا دیں اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل نے شام کے جو تازہ علاقے قبضہ کیے ہیں اس سے  پیچھے جائے۔ نتین یاہو بھی بھلا قبضہ چھوڑتا ہے؟

 مل بانٹنے کے مسئلے پر ترکی اور اسرائیل کا اختلاف کئی ماہ سے چلا آرہا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں کے مابین یو اے ای اور آذربائیجان میں خفیہ مذاکرات بھی ہوچکے، مگر نیتن یاہو ماننے کو تیار نہیں۔  سو صورتحال عسکری جھڑپ تک پہنچ گئی ہے۔ مگر اب شاید کوئی حل نکل آئے کیونکہ مل بانٹ اسکیم میں اگلا نمبر لبنان کا بتایا جا رہا ہے۔ شام کی طرح اس کا بھی کچھ حصہ ترکی اور کچھ اسرائیل کو دینے کی اسکیم آلریڈی تیار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ لبنان کے لیے اپنے نمائندے کے ذریعے لبنانی حکومت کو دھمکی بھیج چکا کہ حزب اللہ کو نکالے ورنہ اسرائیل اور الجولانی تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔

اب آخر میں ہم اس صورتحال پر پاکستانی پہلو سے بھی چند باتیں کہنا ضروری سمجھتے۔ افغانستان میں جو داعش خراسان بیٹھی ہے کیا وہ ان حالات میں خاموش تماشائی رہے گی؟ وہ بھی تو الجولانی کے لوگ ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جو صالحین پچھلے 8 ماہ سے الجولانی کی شان میں فیس بک پر قصیدے لکھ رہے ہیں کیا یہ بس فیس بک تک ہی رہیں گے ؟ لکھ کر دیتے ہیں کہ یہ سہولت کار ثابت ہوں گے۔ لیکن پاکستان سے متعلق ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ہمارے اہم ادارے حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ سے حد سے زیادہ قربت پیدا کر چکے ہیں۔ اسرائیل ہمارا دشمن ہے، ہمارا ایٹمی پروگرام اس کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ ارطغرل ثانی جس نسل کا ہے اس کا تاریخی طور پر قابل اعتماد رشتہ صرف یہودیوں سے ہے۔ ان کے علاوہ ہر ایک کو اس نے دھوکے دے رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں ارطغرل ثانی سے زیادہ بدنام لیڈر عالمی سطح پر دوسرا کوئی نہیں۔ عرب اس ے نالاں، یورپ اس سے بیزار، اور روس اس سے تنگ۔ ابھی 2 ڈھائی ہفتے قبل یہ روس اور یوکرین کے بیچ ثالث بنا ہوا تھا۔ عین مذاکرات کے موقع پر ترکی کا ایک بحری جہاز بحیرہ اسود میں یوکرین کی اوڈیسہ والی بندرگاہ پر ہتھیار اتار رہا تھا جسے روس نے میزائل حملے کا نشانہ بنایا۔ جو آدمی ثالثی کی آڑ میں بھی اس طرح کی دھوکے بازی کرتا ہو، اس پر بھروسہ ؟

 کیا آپ کو نظر نہیں آرہا کہ وہ اب تک شام اور ایران دونوں جگہ اسرائیل کی سہولت کاری کرچکا؟ آپ کا کیا خیال ہے ارطغرل ثانی اور الہام علیوف آپ سے دوستی نبھائیں گے؟ آپ تو ترک ہیں اور نہ ہی یہودی، تو جس ارطغرل ثانی کو غزہ میں ذبح ہوتے بچوں اور مسجد اقصیٰ کی پروا نہیں وہ آپ کی پروا کیوں کرے گا ؟ ہمارے جو حکام ’برادر اسلامی‘ کے چکر میں دانت نکالے کبھی انقرہ تو کبھی باکو پہنچتے ہیں انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ برادر اسلامی نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی، خیالی چورن سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ برادر ترک، برادر یہود، اور برادر عرب ہی سب کچھ ہے۔ یوں ہمارے حصے کے برادر تو 20 کروڑ ہیں مگر نریندر مودی کے انڈیا میں۔ سو ہمارے پاس برادر والی آپشن ہی نہیں ہے۔ ہماری واحد آپشن مفادات کا اشتراک ہے۔ اور وہ ہمارا چین، روس اور ایران کے ساتھ ہے کسی ارطغرل کے ساتھ نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس معطل ’انٹرنیٹ صرف سہولت نہیں، ہمارا روزگار ہے‘

خیبرپختونخوا میں منعقدہ جرگے کے بڑے مطالبات، عملدرآمد کیسے ہوگا اور صوبائی حکومت کیا کرےگی؟

سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری، 27ویں ترمیم میں مزید ترامیم کی منظوری ایجنڈے میں شامل

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کے 2 میچز کا شیڈول تبدیل

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ