مون سون کی سیلابی آفات میں پنجاب کی تیاری، خیبرپختونخوا کی کوتاہی؟

جمعہ 18 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جون کے اختتام سے جولائی 2025 کے وسط تک ملک شدید موسمی بحران کی لپیٹ میں رہا۔ معمول سے 82 فیصد زائد مون سونی بارشیں نہ صرف جانی و مالی نقصانات کا سبب بنیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی تیاریوں اور ردعمل کو بھی کڑی آزمائش میں ڈال دیا۔ ان بارشوں کا سب سے زیادہ اثر پنجاب اور خیبرپختونخوا پر پڑا، جہاں ایک طرف فوری اقدامات نے نقصانات کو کم کیا، تو دوسری طرف بدانتظامی نے المیوں کو جنم دیا۔

پنجاب: بروقت فیصلے، منظم ریسکیو، نتیجہ خیز اقدامات

پنجاب کو اس سیزن میں 124 فیصد زائد بارشوں کا سامنا رہا، جس کے نتیجے میں صرف 24 گھنٹوں میں 54 افراد جان کی بازی ہار گئے، جبکہ 3 ہفتوں میں ہلاکتوں کی تعداد 178 سے تجاوز کر گئی۔ تاہم، پنجاب حکومت کا ردعمل مؤثر اور تیز تھا۔

مزید پڑھیں: ملک میں سیلابی صورتحال، پاک فوج کا وسیع پیمانے پر فضائی ریسکیو آپریشنز جاری

کئی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کی گئی، دفعہ 144 کا اطلاق ہوا۔ ہنگامی طور پر ہیلی کاپٹر کا استعمال بھی کیا گیا جبکہ پاک فوج، پولیس، ریسکیو 1122، و دیگر اداروں نے راولپنڈی، جہلم اور چکوال جیسے شدید متاثرہ اضلاع میں فوری امدادی کارروائیاں شروع کیں۔

ان اضلاع میں103 اموات اور 393 زخمی رپورٹ ہوئے، لیکن صرف ایک دن میں 1,063 افراد کو بچایا گیا۔ شہریوں کو زندگی بچانے والی جیکٹس، خوراک، اور رہائش فراہم کی گئی۔ عوامی آگاہی کے لیے سائرن، اعلانات اور مقامی رابطے کے نظام کو متحرک رکھا گیا۔ یہ وہ عناصر تھے جنہوں نے پنجاب کو مزید بڑے جانی نقصان سے بچا لیا۔

خیبرپختونخوا: المیہ، بے عملی، اور دیر سے اقدامات

خیبرپختونخوا، خاص طور پر سوات، اس موسمی آفت کا سب سے المناک باب بن گیا۔ سوات ندی میں آنے والے فلش فلڈ نے سیاحت کے لیے آئے بچوں اور خاندانوں کو نگل لیا۔ 13 قیمتی جانیں صرف اس ایک سانحے میں چلی گئیں، جبکہ پورے صوبے میں 19 اموات اور 6 زخمی رپورٹ ہوئے۔

ریسکیو 1122 اور پی ڈی ایم اے نہ صرف متاثرہ علاقوں تک بروقت نہ پہنچ سکے بلکہ سانحے کے بعد تحقیقاتی رپورٹیں بھی تاخیر کا شکار رہیں۔ 4 افسران کو معطل کیا گیا، مگر احتساب کا عمل وقتی دکھاوے سے آگے نہ بڑھ سکا۔

سانپ گزرتے ہی لکیر پیٹنے کے لیے صوبائی حکومت حرکت میں آئی تو127 غیر قانونی تعمیرات سیل کی گئیں۔1,019 کنال تجاوزات صاف کی گئیں۔609 کلومیٹر دریائی پٹی کی نشاندہی اور 174 حفاظتی برئیرز کی تنصیب عمل میں لائی گئی۔

مستقبل میں بہتری کے لیے406 ملین روپے کی لاگت سے 30 جدید ڈرونز اور ریسکیو بوٹس کی خریداری کی منظوری دی گئی۔ریور سیفٹی قوانین کے نفاذ کا عندیہ بھی دیا گیا۔

سانحہ سوات: خاموش المیہ یا انتظامی ناکامی؟

المیے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک بچے کی لاش سانحے کے 21 دن بعد دریائے سوات سے برآمد ہوئی۔ یہ صرف ایک انسانی نقصان نہیں، بلکہ ریاستی ردعمل کی سست روی اور تیاری کی ناکامی کا زندہ ثبوت ہے۔

ادھر پنجاب کے ضلع جہلم میں سیلابی پانی میں ریسکیو کے دوران بہہ جانے والے پولیس اہلکار حیدر کی لاش 2 روزہ امدادی کارروائی کے دوران برآمد کر لی گئی ہے۔ حکام کے مطابق اہلکار حیدر جہلم میں اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں اس وقت بہہ گیا جب وہ شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں مصروف تھا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے پنجاب کے لیے امدادی پیشکش تو کی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اپنی سرزمین پر سانحات سے نمٹنے کی تیاری بھی اس دعوے کے برابر ہے؟

2 حکومتیں، 2 مختلف کہانیاں

پنجاب حکومت نے پیشگی تیاری، بین الاداراتی ہم آہنگی، اور سیاسی فیصلہ سازی کے ذریعے ایک بڑے بحران کو جزوی نقصان تک محدود رکھا۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا میں غیر مربوط نظام، کمزور الرٹ سسٹم، اور انتظامی سستی نے ایک قابلِ گریز سانحے کو المناک حقیقت میں بدل دیا۔

مزید پڑھیں: سیلاب میں پھنسے خاندان کو پاک فوج نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچا لیا

یہ صرف 2 صوبوں کی کارکردگی کا فرق نہیں، بلکہ بحران کے دوران گورننس کی اصل تصویر ہے، جہاں ایک طرف نظم و نسق نے انسانی زندگی بچائی، وہیں دوسری جانب بدانتظامی نے المیے کو تاریخی سانحہ بنا دیا۔

سانحہ سوات ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرتی آفات کی شدت سے زیادہ، ان سے نمٹنے کی تیاری، شفافیت، اور قیادت ہی اصل فرق پیدا کرتی ہے۔ آئندہ کے لیے یہ لازم ہے کہ خیبرپختونخوا اپنی ناکامیوں سے سیکھے، اور پنجاب اپنی حکمت عملی کو مزید پائیدار بنائے، تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ صرف دعووں میں نہیں، حقیقت میں ممکن ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp