سینیٹ نے فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے، جس کے تحت کسی خاتون کو اغوا کرنے یا سرِعام برہنہ کرنے والے مجرم کو پناہ دینے پر سزائے موت کا قانون ختم کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون و انصاف کا ضابطہ فوجداری 1898 میں جامع اصلاحات کا اعلان
سینیٹ سے منظور بل کے مطابق اگر کوئی شخص کسی خاتون پر مجرمانہ حملے یا اُسے سرعام برہنہ کرنے جیسے جرائم میں ملوث پایا جائے، تو اُسے بغیر وارنٹ گرفتار کیا جاسکے گا، جبکہ مذکوروہ ناقابلِ ضمانت اور ناقابلِ مصالحت ہوگا، مجرم کو عمر قید، جائیداد کی ضبطی اور بھاری جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔
سینیٹرز کا بل پر اعتراض
بل پر بحث کے دوران سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ عورت کے کپڑے اتارنے جیسے گھناؤنے جرم پر سزائے موت برقرار رہنی چاہیے، تاکہ معاشرے میں خوف اور انصاف کا توازن قائم رہے۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز نے بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے خواتین کو مزید کمزور بنایا جا رہا ہے اور سزا میں نرمی بیرونی دباؤ کے تحت کی جا رہی ہے۔
’یہ سوچنا کہ سخت سزا جرم کو روکتی ہے، درست نہیں‘
تاہم وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سزائے موت کے مؤثر ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ’یہ سوچنا کہ سخت سزا جرم کو روکتی ہے، درست نہیں۔ ہمارے ہاں 100 سے زائد جرائم میں سزائے موت موجود ہے لیکن جرائم کی شرح پھر بھی بڑھ رہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: خواتین سے متعلق آئین کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس آف پاکستان
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی ممالک میں سزائے موت کا وجود نہیں، پھر بھی وہاں جرائم کی شرح کم ہے۔ شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صرف چار جرائم کے سوا اسلام میں دیگر جرائم پر سزائے موت کی اجازت نہیں۔