مردان کے علاقے ساول ڈھیر میں ایک مقامی مذہبی شخصیت کے بہیمانہ قتل نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس پر مجھے 2 افراد کی موت پر سامنے آنے والا ردِعمل یاد آتا ہے۔ حال ہی میں لقمہ اجل بننے والے باغی پاکستانی طارق فتح اور اس سے قبل مولانا وحیدالدین خان کی موت کے بعد سامنے آنے والا ردِعمل۔
ان تینوں شخصیات اور ان کی موت میں کوئی قدر مشترک نہیں لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کی مدد سے ہم اس عارضے تک پہنچ پائیں گے جس کی وجہ سے پاکستانی سماج کی نفسیات کچھ ایسی پیچیدہ ہوچکی ہے کہ دانش مندی پہلے ہی سانس میں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے اور جنون عقل و خرد کو سلب کرلیتا ہے۔ یہ علامت کیا ہے؟ پہلے اسے مولانا وحیدالدین خان کے تعلق سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مولانا وحیدالدین خان بھارت کے نامور عالم دین تھے۔ انہیں ان کے اسلوب ذکیر کی وجہ سے سعدی دوراں کا لقب بھی دیا جاتا ہے۔ کوئی 30، 35 برس ہوتے ہیں، حکومتِ پاکستان نے ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے بھی انہیں نوازا تھا۔ مولانا وحیدالدین خان پاکستان کے ایک بڑے مذہبی طبقے کی نگاہ میں ناقابلِ معافی بلکہ قابلِ گردن زدنی رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کی عدم مقبولیت کی وجوہات 2 ہیں۔ پہلی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ایک عالمگیر رجحان یعنی ردِعمل کی نفسیات کے سب سے بڑے ناقد تھے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تند و تیز پروپیگنڈے اور توہین آمیز رویوں کے خلاف اس قسم کے ردِعمل کو دین کے مزاج بلکہ اس کی روح کے خلاف سمجھتے تھے جس کا مظاہرہ ہمارے یہاں ہوتا ہے یعنی نفرت انگیز مظاہرے اور پُرتشدد طرزِ عمل۔
ان کا خیال تھا کہ اس قسم کے ردِعمل کا مظاہرہ کرکے ہم دراصل دشمن کے اس پروپیگنڈے کو درست ثابت کردیتے ہیں جس میں وہ دنیا کو باور کرانا چاہتا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ان کا دین بھی عقل عام یعنی کامن سینس سے عاری اور پُرتشدد رویوں کو فروغ دینے کا باعث ہے۔ مولانا وحیدالدین خان کی اس رائے کے بارے میں کہا گیا کہ وہ عیسائیت کے اس فلسفے کے پیرو ہیں جس میں ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال پیش کرنے کا کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے ایک طبقے میں ان کی عدم مقبولیت کی وجہ مولانا مودودی سے علمی اختلاف بھی تھا۔ مرحوم جماعت اسلامی کے ابتدائی ارکان میں سے تھے لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ مولانا مودودی سے نظریاتی اختلاف کے باعث علیحدہ ہوگئے اور انہوں نے مولانا مودودی کے دینی نظریات پر کُھلی تنقید کی۔ اپنی اس تنقید میں ان کا رویہ مولانا مودودی کے لیے کبھی کبھار تلخ بھی ہوجاتا تھا۔
ان 2 ‘جرائم’ نے مولانا وحیدالدین خان کو پاکستان میں غیر مقبول بنا دیا حتیٰ کہ ان کی موت پر ان کے لیے کلمہ خیر کہنے والے بھی انتہائی کم تھے۔ جن لوگوں نے انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا، انہیں مطعون کیا گیا اور انہیں مولانا مرحوم کی ایک بدھ مونک کے ساتھ خوشگوار تصویر دکھا کر بتایا گیا کہ یہ شخص جن لوگوں کا پیارا تھا، تعریف کے لیے بھی انہیں ہی رہنے دیں اور نفرت انگیز تبرے میں آپ ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں۔
طارق فتح بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک جذباتی بلکہ شدت پسند دانشور تھے۔ ان کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اپنی شدت پسندی کی وجہ سے وہ دین کا انکار تو کرتے ہی تھے، پاکستان کے بھی منکر ہوچکے تھے اور جب موقع ملتا تھا، اسلام اور پاکستان کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش رہتے تھے۔
ان کا طرزِ عمل یقیناً ناپسندیدہ تھا لیکن کیا ان کے یہ گناہ ہمیں اس بات کی اجازت بھی دیتے ہیں کہ ایسے کسی شخص کی موت پر ہم گالی گلوچ پر اتر آئیں؟ صرف اسلام ہی نہیں ، کوئی بھی مذہب اجازت نہیں دیتا کہ کسی مرنے والے کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے جائیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہمارے دوستوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل بھی نظر انداز کردیا کہ انہوں نے عبداللہ بن ابی کی موت پر ان کے مسلمان صاحبزادے کی درخواست پر اپنا کرتا اس کے کفن کے لیے عنایت کردیا تھا۔ انہوں نے یہ مہربانی یہ جانتے ہوئے فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ منافقین اور خاص طور پر منافقین کے اس سردار کو کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس کے باوجود اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مہربانی فرماتے ہیں تو ان کے اس عمل کے پس پشت یہ حکمت کارفرما تھی کہ ان کی امت میں برداشت اور رواداری پیدا ہوسکے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مزاج سے یہ دونوں خوبیاں رخصت ہوچکی ہیں۔
طارق فتح کے انتقال پر بعض احباب نے گالی گلوچ کرنے والے دوستوں کو اعتدال کا مشورہ دیا تو انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا جن کا کہنا تھا کہ طارق فتح کی گمراہی اپنی جگہ مسلم لیکن کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ صبح کے ان بھولے ہوؤں کی واپسی کی امید رکھی جائے اور اسلام کے مزاج کے مطابق آپ ایک ایسا کاندھا بن جائیں جو انہیں واپسی پر سہارا فراہم کرسکے۔ اسلام کے مزاج کے عین مطابق اس مشورے کا خیر مقدم پورے پاکستان میں سے صرف ایک شخص نے کیا۔ یہ تھے ڈاکٹر عمر فاروق احرار۔ ان کا تعلق جماعت احرار سے ہے۔
ان دونوں واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانی سماج سے اعتدال اور معاملہ فہمی رخصت ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں چند دینی عقائد کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے اور دہائیوں سے ان پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ دین کی روح اور اس کی تعلیمات پس منظر میں جاچکی ہیں اور ایسی کیفیات غالب آچکی ہیں جن میں شدت اور تلخی تو ہے لیکن دینی تعلیمات کے عین مطابق انسانیت بلکہ اپنے ہم مذہب کے لیے بھی محبت، ہمدردی اور درد مندی کے جذبات معدوم ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی ہجوم دیکھتے دیکھتے کسی کی بات کو سمجھے اور صفائی کا موقع دیے بغیر مدعی اور منصف، دونوں کردار از خود اختیار کرکے مردان کے واقعے کی طرح ایک زندہ وجود کو چند لمحوں میں موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ ایسا ہجوم نہ صرف یہ کہ درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ اسے دین کے پردے میں چھپا کر خود کو حق بجانب بھی قرار دیتا ہے۔
یہ ایک ایسا خطرناک رویہ ہے جس سے عام آدمی خوفزدہ ہوکر غلط کو غلط کہنے کی جرأت بھی کھو دیتا ہے۔ اسی قسم کا طرزِ عمل ہوتا جس کے نتیجے میں دین کی روشن تعلیمات کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے اور زندہ معاشرے دیکھتے ہی دیکھتے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے ہی خطرناک موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں۔
ان سطور کے جن پڑھنے والوں کو سرگودھا جانے کا اتفاق ہوا ہوگا، انہیں اس شہر کی دکانوں پر جلی الفاظ میں تحریر کردہ یہ اعلان دیکھ کر حیرت ہوئی ہوگی جن میں کہا گیا ہے:
‘قادیانی پہلے کلمہ پڑھ کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوں پھر اس دکان میں داخل ہوں۔’
قادیانی یا احمدی کون ہیں اور کیا ہیں، یہ فیصلہ دینی تعلیمات کی روشنی میں بھی ہوچکا اور پاکستان کے آئین نے بھی کردیا ہے، اس کے بعد سرگودھا کے دکانداروں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ایک مذہبی کمیونٹی کا سوشل بائیکاٹ کرکے سماج میں انتشار، نفرت اور تشدد کو ہوا دیں؟ یہ طرزِ عمل بھی اسی نفرت انگیز رویے کا شاخسانہ ہے جو دین اور ریاست دونوں سے صریحاً بغاوت ہے اور تشدد کا راستہ کھولتی ہے۔
اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور دعوت کا راستہ کم از کم پاکستانی معاشرے میں ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے حالانکہ اسلام ہے ہی دعوت کا دین، مبازرت کا نمبر تو بہت بعد میں جا کر آتا ہے جس کی شرائط بڑی سخت ہیں اور یہ اختیار نہ کسی فرد کو دیا جاسکتا ہے اور نہ کسی گروہ کو، اسلام نے یہ ذمے داری صرف اور صرف ریاست کو دی ہے۔ خاص طور پر ریاست کے اندر ایسے معاملات کی نوعیت مزید مختلف ہوجاتی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اس رویے کی اصلاح کیسے ممکن ہوگی؟ ہماری نگاہ میں اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہمارے ہاں ماضی میں ریاستی سطح پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جن حساس مذہبی موضوعات کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس سے علانیہ برات کا اظہار کرکے عہد کیا جائے کہ آئندہ ایسا نہیں کیا جائے گا۔ اس عہد کو ایک قانونی دستاویز کی صورت دے کر آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ ماضی میں حد سے بڑھی ہوئی فرقہ دارانہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے دینی جماعتوں کی سطح پر ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک کوشش ہوئی تھی جس کے نتیجے میں خونریزی میں بڑی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی۔ اس وقت بھی زیادہ بڑے پلیٹ فارم پر اسی طرح کے دانش مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ہمیں کسی بڑے سانحے کا منتظر رہنا چاہیے۔